وان يريدوا ان يخدعوك فان حسبك الله هو الذي ايدك بنصره وبالمومنين ٦٢
وَإِن يُرِيدُوٓا۟ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ ٱللَّهُ ۚ هُوَ ٱلَّذِىٓ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِۦ وَبِٱلْمُؤْمِنِينَ ٦٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 62 وَاِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط۔گویا ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت دی جا رہی ہے۔ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی مدد اہل ایمان کے ذریعے سے کی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے آپ ﷺ کو ایسے مخلص اور جاں نثار صحابہ عطا کیے کہ جہاں آپ ﷺ کا پسینہ گرا وہاں انہوں نے اپنے خون کی ندیاں بہا دیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس خصوصی امداد کی شان اس وقت خوب نکھر کر سامنے آتی ہے جب ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رض کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کا طرز عمل دیکھتے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلو ‘ تو انہوں نے صاف کہہ دیا تھا : فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ المائدۃ تو جایئے آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کا رب دونوں جا کر لڑیں ‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیزاری سے یہاں تک کہہ دیا تھا : رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ الاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ اے میرے رب ! میں تو اپنی جان اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا ‘ لہٰذا آپ ہمارے اور اس فاسق قوم کے درمیان علیحدگی کردیں۔ایک طرف یہ طرز عمل ہے جبکہ دوسری طرف نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کا انداز اخلاص اور جذبہ جاں نثاری ہے۔ غزوۂ بدر سے پہلے جب حضور ﷺ نے مقام صفراء پر صحابہ رض سے مشاورت کی اور یہ بڑی کانٹے دار مشاورت تھی تو کچھ لوگ مسلسل زور دے رہے تھے کہ ہمیں قافلے کی طرف چلنا چاہیے اور وہ اپنے اس موقف کے حق میں بڑی زور دار دلیلیں دے رہے تھے ‘ مگر حضور ﷺ ہر بار فرما دیتے کہ کچھ اور لوگ بھی مشورہ دیں ! اس پر مہاجرین میں سے حضرت مقداد رض نے کھڑے ہو کر یہی بات کی تھی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اسی طرف چلئے ‘ آپ ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح نہ سمجھئے ‘ جنہوں نے کہہ دیا تھا : فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ ۔ ہم آپ ﷺ کے ساتھی ہیں ‘ آپ ﷺ جو حکم دیں ہم حاضر ہیں۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رض نے بھی اظہار خیال فرمایا ‘ لیکن حضور ﷺ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر انصار نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مدینہ پر حملہ ہوا تو ہم آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے ‘ لیکن یہاں معاملہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا تھا ‘ لہٰذا جنگ کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حضرت سعد بن معاذ رض نے آپ ﷺ کی منشا کو بھانپ لیا ‘ لہٰذا وہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ شاید آپ ﷺ کا روئے سخن ہماری انصار کی طرف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس پر انہوں نے کہا : لَقَدْ اٰمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ۔۔ ہم آپ ﷺ پر ایمان لا چکے ہیں ‘ ہم آپ ﷺ کی تصدیق کرچکے ہیں ‘ ہم آپ ﷺ کو اللہ کا رسول مان چکے ہیں اور آپ ﷺ سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں ‘ اب ہمارے پاس آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کے علاوہ کوئی راستہ option نہیں ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘ اگر آپ اپنی سواری اس سمندر میں ڈال دیں گے تو ہم بھی آپ کے پیچھے اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں گے۔ اور خدا کی قسم ‘ اگر آپ ﷺ ہمیں کہیں گے تو ہم برک الغماد یمن کا شہر تک جا پہنچیں گے ‘ چاہے اس میں ہماری اونٹنیاں لاغر ہوجائیں۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ ﷺ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا ٹکرائیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے ‘ مقابلہ میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے ‘ اور بعید نہیں کہ اللہ آپ ﷺ کو ہم سے وہ کچھ دکھوا دے جسے دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ﷺ ہمیں لے چلیں ! حضرت سعد رض کی اس تقریر کے بعد حضور ﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور آپ ﷺ نے بدر کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ ایک جھلک ہے اس مدد کی جو اللہ کی طرف سے آپ ﷺ کے انتہائی سچے اور مخلص صحابہ رض کی صورت میں حضور ﷺ کے شامل حال تھی۔