خدا کے سوا جس چیز کو آدمی معبود کا درجہ دیتا ہے وہ اس کی ایک خواہش ہوتی ہے جس کو وہ واقعہ فرض کرلیتا ہے۔ کبھی اپنی بے عملی کے انجام سے بچنے کے لیے وہ کسی کو خدا کا مقرب یقین کر لیتا ہے جو خدا کے یہاں اس کا مدد گار اور سفارشی بن جائے۔ کبھی وہ ایک شخصیت کے حق میں طلسماتی عظمت کا تصو رقائم کرلیتا ہے تاکہ اپنے کو اس سے منسوب کرکے اپنے چھوٹے پن کی تلافي کرسکے۔ کبھی اپني سہل پسندی کی وجہ سے وہ ایسا خدا گھڑ لیتاہے جو سستی قیمت پر مل جائے اور معمولی معمولی چیزوں سے جس کو خوش کیاجاسکے۔
مگر اس قسم کی تمام چیزیں محض مفروضات ہیں اور مفروضات کسی کو حقیقت تک نہیں پہنچا سکتے۔ تاہم آدمی اپنی سستی طلب میں کبھی اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ خود ان لوگوں کو چیلنج کرنے لگتا ہے جنھوںنے کائنات کے حقیقی مالک کی طرف اپنے کو کھڑا کررکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ساری بڑائی اگر اسی ایک خدا کے لیے ہے جس کے تم نمائندہ ہو تو ہم جیسے نافرمانوں پر اس کا عتاب نازل کرکے دکھاؤ۔ یہ جرأت ان کو اس لیے ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیںکہ توحید کے داعیوں کے مقابلہ میں ان کے اپنے گرد زیادہ دنیوی رونقیں جمع ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ مادی چیزیں ان کو دنیا داری اور مصلحت پرستی کی بنا پر ملی ہیں اور توحید کے داعی جو ان چیزوں سے خالی ہیں وہ اس لیے خالی ہیں کہ ان کی آخرت پسندی نے ان کو مصلحت پرستی کی سطح پر آنے سے روکے رکھا۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنيا ہے۔ اس لیے یہاں دیکھنے کي چیز یہ نہیں ہے کہ آدمی کے مادی حالات کیا ہیں۔ بلکہ یہ کہ وہ حقیقی دلیل پر کھڑا ہوا ہے یا مفروضات اور خوش گمانیوں پر۔ بالآخر وہی شخص کامیاب ہوگا جوواقعی دلیل پر کھڑا ہو۔ جو لوگ مفروضات پر کھڑے ہوئے ہیں ان کا آخری انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی اس دنیا میں بالکل بے سہارا ہو کر رہ جائیں۔ جس دنیا کا سارا نظام محکم قوانین پر چل رہا ہو اس کا آخری انجام خوش خیالیوں کے تابع کیوں کر ہوجائے گا۔
0%