کافر لوگ بطور اعتراض کہا کرتے تھے کہ «وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا» [17-الإسراء:90] جو معجزہ ہم طلب کرتے ہیں یہ کیوں نہیں دکھاتے؟ مثلاً عرب کی کل زمین میں چشموں اور آبشاروں کا جاری ہو جانا وغیرہ۔ فرماتا ہے کہ ” قدرت الٰہی سے تو کوئی چیز باہر نہیں لیکن اس وقت حکمت الہیہ کا تقاضا یہ نہیں “۔ «وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا» [17-الإسراء:59] ” اس میں ایک ظاہری حکمت تو یہ ہے کہ تمہارے چاہے ہوئے معجزے کو دیکھ لینے کے بعد بھی اگر تم ایمان نہ لائے تو اصول الہیہ کے مطابق تم سب کو اسی جگہ ہلاک کر دیا جائے گا جیسے تم سے اگلے لوگوں کے ساتھ ہوا، ثمودیوں کی نظیر تمہارے سامنے موجود ہے ہم تو جو چاہیں نشان بھی دکھا سکتے ہیں اور جو چاہیں عذاب بھی کر سکتے ہیں “۔
چرنے چگنے والے جانور اڑنے والے پرند بھی تمہاری طرح قسم قسم کے ہیں مثلاً پرند ایک امت، انسان ایک امت، جنات ایک امت وغیرہ، یا یہ کہ وہ بھی سب تمہاری ہی طرح مخلوق ہیں، سب پر اللہ کا علم محیط ہے، سب اس کی کتاب میں لکھے ہوئے ہیں، نہ کسی کا وہ رزق بھولے نہ کسی کی حاجت اٹکے نہ کسی کی حسن تدبیر سے وہ غافل خشکی تری کا ایک ایک جاندار اس کی حفاظت میں ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ» [11-هود:6] یعنی ” جتنے جاندار زمین پر چلتے پھرتے ہیں سب کی روزیاں اللہ کے ذمہ ہیں وہی ان کے جیتے جی کے ٹھکانے کو اور مرنے کے بعد سونپے جانے کے مقام کو بخوبی جانتا ہے اس کے پاس لوح محفوظ میں یہ سب کچھ درج بھی ہے، ان کے نام، ان کی گنتی، ان کی حرکات و سکنات سب سے وہ واقف ہے اس کے وسیع علم سے کوئی چیز خارج اور باہر نہیں “۔
اور مقام پر ارشاد ہے آیت «وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» [29۔العنکبوت:60] ” بہت سے وہ جاندار ہیں جن کی روزی تیرے ذمہ نہیں انہیں اور تم سب کو اللہ ہی روزیاں دیتا ہے وہ باریک سے باریک آواز کو سننے والا ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا جاننے والا ہے “۔
ابو یعلیٰ میں جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دو سال کی خلافت کے زمانہ میں سے ایک سال ٹڈیاں دکھائی ہی نہیں دیں تو آپ رضی اللہ عنہ کو بہت خیال ہوا اور شام، عراق، یمن وغیرہ کی طرف سوار دوڑائے کہ دریافت کر آئیں کہ ٹڈیاں اس سال کہیں نظر بھی پڑیں یا نہیں؟ یمن والا قاصد جب واپس آیا تو، آپ رضی اللہ عنہ نے ساتھ مٹھی بھر ٹڈیاں بھی لیتا آیا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے سامنے ڈال دیں۔
آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر تین مرتبہ تکبیر کہی اور فرمایا ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عزوجل نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں۔ ان تمام امتوں میں سے سب سے پہلے ٹڈی ہلاک ہو گی اس کے بعد تو ہلاکت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا بالکل اس طرح جیسے کسی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ گیا اور موتی یکے بعد دیگرے جھڑنے لگ گئے ۔ [بیهقی فی شعب الایمان:10132/7:موضوع]
پھر فرماتا ہے ” سب کا حشر اللہ کی طرف ہے “ یعنی سب کو موت ہے، چوپایوں کی موت ہی ان کا حشر ہے۔ ایک قول تو یہ ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ میدان محشر میں بروز قیامت یہ بھی اللہ جل شانہ کے سامنے جمع کئے جائیں گے۔
جیسے فرمایا آیت «وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ» [81۔ التکویر:5]
مسند احمد میں ہے کہ دو بکریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیوں لڑ رہی ہیں؟ جواب ملا کہ میں کیا جانوں؟ فرمایا: لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور ان کے درمیان وہ فیصلہ بھی کرے گا ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1588:صحیح] ۔
ابن جریر کی ایک اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اڑنے والے ہر ایک پرند کا علم بھی ہمارے سامنے بیان کیا گیا ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:13227:حسن بالشواهد]
مسند کی اور روایت میں ہے کہ بے سینگ بکری قیامت کے دن سینگ والی بکری سے اپنا بدلہ لے گی ۔ [مسند احمد:323/2:حسن لغیره]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تمام مخلوق چوپائے بہائم پرند وغیرہ غرض تمام چیزیں اللہ کے سامنے حاضر ہوں گی۔ پھر ان میں یہاں تک عدل ہوگا کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس کا بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے جناب باری فرمائے گا ” تم مٹی ہو جاؤ “۔ اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ «يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا» [78-النبأ:40] ” کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے “ ۔ صور والی حدیث میں یہ مرفوعاً بھی مروی ہے۔
پھر کافروں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ ” وہ اپنی کم علمی اور کج فہمی میں ان بہروں گونگوں کے مثل ہیں جو اندھیروں میں ہوں۔ بتاؤ تو وہ کیسے راہ راست پر آ سکتے ہیں؟ نہ کسی کی سنیں نہ اپنی کہیں نہ کچھ دیکھ سکیں “۔
جیسے سورۃ البقرہ کی ابتداء میں ہے کہ «مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّـهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ» [2-البقرة:17-18] ” ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو آگ سلگائے جب آس پاس کی چیزیں اس پر روشن ہو جائیں اس وقت آگ بجھ جائے اور وہ اندھیریوں میں رہ جائے اور کچھ نہ دیکھ سکے۔ ایسے لوگ بہرے گونگے اندھے ہیں وہ راہ راست کی طرف لوٹ نہیں سکتے “۔
اور آیت میں ہے «اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّـجِّيٍّ يَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ» [24-النور:40] یعنی ” مثل ان اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جس کی موجوں پر موجیں اٹھ رہی ہوں اور اوپر سے ابر چھایا ہو اندھیروں پر اندھیریاں ہوں کہ ہاتھ بھی نظر نہ آ سکے۔ جسے قدرت نے نور نہیں بخشا وہ بے نور ہے “۔ پھر فرمایا ” ساری مخلوق میں اللہ ہی کا تصرف ہے وہ جسے چاہے صراط مستقیم پر کردے “۔
0%