اس سورة مبارکہ کی آخری آیت ایک طویل آیت ہے اور منطقی اعتبار سے یہ اس سلسلہ مضمون کا ایک انتہائی اہم اور بلند ترین مقام ہے جو گزشتہ آیات میں چلا آ رہا ہے۔ فرمایا :آیت 14{ یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ } ”اے اہل ایمان ! تم اللہ کے مددگار بن جائو“ اللہ کے مددگار بننے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ کے دین کا جھنڈا سربلند کرنے پر کمربستہ ہو جائو۔ اور اگر تم اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے جدوجہد کرو گے تو تم محمد عربی ﷺ کے مددگار بھی بن جائو گے ‘ کیونکہ غلبہ دین کا یہ مشن اصل میں تو اللہ کے رسول ﷺ کا مشن ہے۔ تو اے اہل ایمان ! آئو آگے بڑھو ! اللہ کے دین کا جھنڈا اٹھائو ! جان و مال کا سرمایہ لگائو اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مددگاروں میں اپنانام لکھوا لو۔ { کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ } ”جیسے کہا تھا عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم نے اپنے حواریوں سے“ { مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِط } ”کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف ؟“ یعنی کون ہے جو میری مدد کرے اللہ کی راہ میں ؟ مدد مجھے درکار ہے ‘ لیکن مشن اللہ کا ہے۔ اس فقرے میں وہی دو نسبتیں نظر آرہی ہیں جن کا ذکر سورة الفتح کی اس آیت میں حضور ﷺ کی بیعت کے حوالے سے آیا ہے : { اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْج } آیت 10۔ یعنی بیعت حضور ﷺ کے ہاتھ پر ہو رہی ہے لیکن سودا اللہ تعالیٰ سے ہے۔ گویا عملی طور پر اس بیعت میں دو کے بجائے تین ہاتھ ہیں : بیعت کرنے والے کا ہاتھ ‘ حضور ﷺ کا ہاتھ اور اللہ کا ہاتھ۔ چناچہ اللہ کی مدد کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ آپ اس ”بندے“ کی مدد کریں جو اللہ کے مشن کو لے کر اس کے راستے پر نکلا ہو۔ اسی فلسفے کے تحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے اللہ کی مدد کے لیے آپ علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا تھا اور اسی جذبے کے ساتھ حضور ﷺ کے صحابہ رض نے اپنا سب کچھ آپ ﷺ کے قدموں میں نچھاور کر کے { وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ} الفتح : 29 کی فہرست میں اپنے نام لکھوائے تھے۔ چناچہ آج بھی اس مشن کو آگے بڑھانے کا یہی طریقہ ہے کہ اللہ کی توفیق سے اللہ کا کوئی بندہ خود کو اس مشن کے لیے وقف کر کے { مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِط } کی صدا بلند کرے کہ اے اللہ کے بندو ! میں نے تو یکسو ہو کر اللہ کی طرف رجوع کرلیا ہے۔ مجھے تو اب اس راستے پر چلنا ہی چلنا ہے۔ کوئی ساتھی ملے گا تب بھی چلوں گا اور اگر کوئی ساتھی نہیں ملے گا تب بھی چلوں گا۔ تو آئو آگے بڑھو اور میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اللہ کے مددگار بن جائو ! { قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ } ”حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار !“ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مددگار بن گئے۔ بنیادی طور پر اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے خلوص و ایثار کا ذکر ہے کہ انہوں نے { مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ } کی دعوت پر بلاتامل خود کو پیش کردیا۔ { فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌج } ”تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کفر پر اڑا رہا۔“ { فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ } ”تو ہم نے مدد کی ان کی جو ایمان لائے تھے ان کے دشمنوں کے خلاف“ { فَاَصْبَحُوْا ظٰہِرِیْنَ۔ } ”تو بالآخر وہی غالب ہوئے۔“ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام لیوا دنیا میں غالب ہوئے اور اللہ کے رسول علیہ السلام کا انکار کرنے والے یہودی مغلوب ہوئے۔۔۔۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کو یہ کامیابی آسانی سے نہیں ملی تھی ‘ اس کے لیے ان لوگوں کو تین سو سال تک جاں گداز جدوجہد کرنی پڑی اور بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ اس کے مقابل حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رض کی ابتلاء و آزمائش کا دورانیہ چند سال کے عرصے میں سمٹ گیا تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جتنے طویل عرصے تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں نے مخالفین کی طرف سے تکلیفیں اور سختیاں برداشت کی ہیں اس کی کوئی مثال کسی اور نبی علیہ السلام یا رسول علیہ السلام کے پیروکاروں میں نہیں ملتی۔ قرآن مجید میں ان کی آزمائشوں اور قربانیوں کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً سورة یٰسین کے آغاز میں جن تین رسولوں کا ذکر آیا ہے ان کے بارے میں زیادہ تر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ یعنی وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے فرستادہ رسول علیہ السلام کے رسول تھے۔ اسی طرح سورة البروج میں جن اہل ایمان کا واقعہ بیان ہوا ہے وہ بھی عیسائی تھے اور انہیں بادشاہِ وقت ’ ابونواس ‘ نے خندقوں میں ڈال کر زندہ جلا دیا تھا۔ پھر اصحاب الکہف جو رومی بادشاہ کے تشدد کے خوف سے غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے وہ بھی عیسائی تھے۔ بہرحال حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں کی تین صدیوں پر محیط لازوال قربانیوں کے بعد بالآخر 300 عیسوی میں رومی سلطنت نے عیسائیت قبول کرلی۔ آیت میں اسی غلبے کا ذکر ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکار جب گمراہ ہونے پر آئے تو انہوں نے شرک بھی بدترین ایجاد کیا۔ یعنی انہوں نے اپنے پیغمبر کو بربنائے عقیدت اللہ کا صلبی بیٹا بنا ڈالا نعوذ باللہ۔ اس ضمن میں آج ہمیں بھی اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض نعت خواں حضرات حضور ﷺ سے عقیدت اور عشق و محبت کے نام پر اتنا غلو کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کو اللہ کے برابر بٹھانے سے کم پر ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ ایسے لوگوں نے ہندوئوں کی دیکھا دیکھی حضور ﷺ کے لیے ”اوتار“ کا عقیدہ بھی گھڑ لیا ہے۔ عبرت کے لیے ملاحظہ ہوں یہ اشعار : ؎وہی جو مستویٔ عرش تھا خدا ہو کر اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفیٰ ﷺ ہو کر !اور : ؎مدینے کی مسجد میں منبر کے اوپر بغیر عین کا اِک عرب ہم نے دیکھا ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ } النساء : 171 کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم صرف یہود و نصاریٰ کے لیے ہی نہیں تھا ‘ ہمارے لیے بھی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھی درخورِ اعتناء نہیں سمجھا اور ہر اس گناہ اور جرم میں بےدھڑک اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی جس کا ارتکاب کر کے پچھلی امتیں راندئہ درگاہ ہوئی تھیں۔ سوائے اس کے کہ قرآن کے متن میں ہم تحریف نہیں کرسکے اور وہ بھی اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تحفظ حاصل ہے۔ ورنہ اگر ممکن ہوتا تو اس میدان میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہ رہتے۔
0%