تبصرة وذكرى لكل عبد منيب ٨
تَبْصِرَةًۭ وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍۢ مُّنِيبٍۢ ٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 8 { تَـبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ۔ } ”یہ اللہ کی نشانیاں ہیں سجھانے اور یاد دہانی کرانے کو ہر اس بندے کے لیے جو رجوع رکھے ہوئے ہو۔“ عَبْدِ مُنِیْب سے ایسا بندہ مراد ہے جس کی روح اور فطرت کا رخ اللہ کی طرف ہو۔ مطلب یہ کہ اگر کسی انسان کی فطرت سلیم اور روح زندہ ہو تب ہی یہ ”بصائر“ اس کے لیے مفید ہوں گے۔ ایسی صورت میں اسے کائنات میں بکھری اللہ کی نشانیاں نظر بھی آئیں گی اور ان نشانیوں سے اس کے دل میں خالق حقیقی کی ”یاد“ بھی تازہ ہوتی رہے گی۔ لیکن اگر کسی انسان کی فطرت مسخ اور روح مردہ ہوچکی ہو تو اس کا ”دیکھنا“ اور ”سننا“ اس کے لیے ہرگز مفید نہیں ہوگا۔ سورة الغاشیہ کی ان آیات کا انداز بھی اس حوالے سے بہت بصیرت افروز ہے :{ اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ۔ وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ۔ وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ۔ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ۔ }”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں اونٹوں کو کہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں ؟ اور آسمان کو کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ؟ اور پہاڑوں کو کہ کیسے گاڑدیے گئے ہیں ؟ اور زمین کو کہ کیسے بچھا دی گئی ہے ؟“یعنی پوری کائنات میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں ‘ جو انسان کو قدم قدم پر یاد دلاتی ہیں کہ ہرچیز کا خالق اور صورت گر وہی ہے : { ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰیط } الحشر : 24 ”وہی ہے اللہ ‘ پیدا کرنے والا ‘ وجود بخشنے والا ‘ صورتیں بنانے والا ‘ تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔“ اقبال نے ”آیاتِ خداوندی“ کے مشاہدے کی دعوت ان الفاظ میں دی ہے : ؎کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ !