Você está lendo um tafsir para o grupo de versos 38:4 a 38:8
وعجبوا ان جاءهم منذر منهم وقال الكافرون هاذا ساحر كذاب ٤ اجعل الالهة الاها واحدا ان هاذا لشيء عجاب ٥ وانطلق الملا منهم ان امشوا واصبروا على الهتكم ان هاذا لشيء يراد ٦ ما سمعنا بهاذا في الملة الاخرة ان هاذا الا اختلاق ٧ اانزل عليه الذكر من بيننا بل هم في شك من ذكري بل لما يذوقوا عذاب ٨
وَعَجِبُوٓا۟ أَن جَآءَهُم مُّنذِرٌۭ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ ٱلْكَـٰفِرُونَ هَـٰذَا سَـٰحِرٌۭ كَذَّابٌ ٤ أَجَعَلَ ٱلْـَٔالِهَةَ إِلَـٰهًۭا وَٰحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَىْءٌ عُجَابٌۭ ٥ وَٱنطَلَقَ ٱلْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ ٱمْشُوا۟ وَٱصْبِرُوا۟ عَلَىٰٓ ءَالِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَىْءٌۭ يُرَادُ ٦ مَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِى ٱلْمِلَّةِ ٱلْـَٔاخِرَةِ إِنْ هَـٰذَآ إِلَّا ٱخْتِلَـٰقٌ ٧ أَءُنزِلَ عَلَيْهِ ٱلذِّكْرُ مِنۢ بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِى شَكٍّۢ مِّن ذِكْرِى ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا۟ عَذَابِ ٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

’’پیغمبر اسلام‘‘کا نام آج ایک عظیم نام ہے۔ کیوں کہ بعد کی پرعظمت تاریخ نے اس کو عظیم بنادیا ہے۔ مگر ابتدا میں جب آپ نے مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگوں کو آپ صرف ایک معمولی آدمی دکھائی دیتے تھے۔ لوگوں کےلیے یہ یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ یہی معمولی آدمی وہ شخص ہے جس کو خدا نے اپنے کلام کا مہبط بننے کےلیے چنا ہے— جب تاریخ بن چکی ہو تو ایک اندھا آدمی بھی پیغمبر کو پہچان لیتاہے۔ مگر تاریخ بننے سے پہلے پیغمبر کو پہچاننے کےلیے جوہر شناسی کی صلاحیت درکار ہے، اور یہ صلاحیت وہ ہے جو ہر دور میں سب سے زیادہ کم پائی گئی ہے۔

قرآن کا غیر معمولی طورپر موثر کلام، قرآن کے مخالفین کو مبہوت کردیتا تھا۔ مگر صاحب قرآن کی معمولی تصویر دوبارہ انھیں شبہ میں ڈال دیتی تھی۔ اس ليے وہ اس کو رد کرنے کےلیے طرح طرح کی باتیں کرتے تھے۔ کبھی اس کو جادوگر کہتے، کبھی جھوٹا بتاتے، کبھی کہتے کہ اس کے پیچھے کوئی مادی غرض شامل ہے، کبھی کہتے کہ ایسا کیوںکر ہوسکتاہے کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگوں کی بات صحیح نہ ہو اور اس معمولی آدمی کی بات صحیح ہو۔

’’اپنے معبودوں پر جمے رہو‘‘ کا لفظ بتاتاہے کہ دلیل کے میدان میں وہ اپنے آپ کو عاجز پا رہے تھے، اس ليے انھوں نے تعصب کے نعرہ پر اپنے لوگوں کو قرآنی سیلاب سے بچانے کی کوشش کی۔