Você está lendo um tafsir para o grupo de versos 26:43 a 26:45
قال لهم موسى القوا ما انتم ملقون ٤٣ فالقوا حبالهم وعصيهم وقالوا بعزة فرعون انا لنحن الغالبون ٤٤ فالقى موسى عصاه فاذا هي تلقف ما يافكون ٤٥
قَالَ لَهُم مُّوسَىٰٓ أَلْقُوا۟ مَآ أَنتُم مُّلْقُونَ ٤٣ فَأَلْقَوْا۟ حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا۟ بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ ٱلْغَـٰلِبُونَ ٤٤ فَأَلْقَىٰ مُوسَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ٤٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب ایٓئے میدان مقابلہ کی طرف فریقین تیار ہیں اور عوام جمع ہیں۔

قال لھم ……اول المئومنین (51)

پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ اس پر سارے جادوگر بےاختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اٹھے کہ ” مان گئے ہم رب العالمین کو … موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کے رب کو۔ “ فرعون نے کہا ” تم موسیٰ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دینا ! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اچھا ؟ ابھی تمہیں معلوم ہوتا جاتا ہے ، میں تمہارے ہاتھ پائوں مخلاف سمتوں سے کنوائوں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا۔ ‘ انہوں نے جواب دیا ” کچھ پروا نہیں ، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا ، کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں۔ “

یہ منظر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اور پروقار انداز سے شروع ہوتا ہے۔ البتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ چونکہ سچائی اور خدائی ہے اس لئے وہ بالکل گھبرائے ہوئے نہیں ہیں۔ فرعون نے پورے ملک کے ماہرین فن مکار جادوگروں ککو بلایا ہوا ہے اور ان کے ساتھ گمراہ اور سادہ لوح عوام الناس کا ایک جم غقیر بھی جمع کر رکھا ہے ، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان سرکاری تیاریوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں کر رہے۔ حضرت موسیٰ کے اطمینان کا اظہار اس امرت ہوتا ہے کہ وہ ان جادوگروں کو موقعہ دیتے ہیں کہ وہ پہلے اپنے کرتب دکھائیں۔

قال لھم مسویٰ القواما انتم ملقون (26 : 33) ” موسیٰ نے ان سے کہا پھینکو جو تمہیں پھینکا ہے۔ “ حضرت موسیٰ کا انداز تعبیر ہی ایسا ہے کہ وہ ان کے کرتب کو اہمیت نہیں دے رہے۔ پھینکو جو پھینکنا ہے۔

القواما انتم ملقون (26 : 23) آپ یہ بات لاپرواہی اور بغیر کسی اہتمام کہتے ہیں۔ چناچہ جادوگروں نے اپنی پوری مہلت ، اپنی پوری استادی اور اپنی پوری مکاری کو اکم میں لا کر اور فرعون کے نام کا ورد کر کے اپنی باری کا آغاز کیا۔

فالقوا جبالھم و عصیھم وقالوا بعزۃ فرعون انا لنحن الغلبون (26 : 33)

” انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے ، فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے۔ “ یہاں سیاق کلام میں ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔ سورة اعراف اور طہ میں تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ اس لئے کہ یہاں سیاق کلام حضرت موسیٰ کے گہرے اطمینان کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یہاں فوراً حضرت موسیٰ کی پوری کارروائی دکھا دی جاتی ہے کیونکہ غلبہ حق اس سورت کا محور اور مضمون ہے۔

فالقی موسیٰ عصاہ فاذا ھی تلقف مایافکون (26 : 35) ” پھر مسویٰ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ “ ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے فن کاری کی آخری صلاحیتیں صرف کی تھیں۔ انہوں نے ساری عمر اس شعبدہ بازی میں گزاری تھی اور اس میں پوری مہارت حاصل کی تھی۔ انہوں نے وہ تمام کرتب پیش کردیئے تھے جو ایک جادو گر کرسکتا ہے۔ وہ تھے بھی بڑی تعداد میں ہر طرف سے گروہ درگروہ جمع ہو کر آئے تھے۔ مسویٰ (علیہ السلام) یکہ و تنہا تھے۔ ان کے پاس صرف اپنا عصا تھا۔ یہ عصا ان کی تمام رسیوں اور لاٹھیوں کو ہڑپ کر گیا۔ (الف) کا لغوی مفہوم ہے ہڑپ کرل ینا یعنی بڑی تیزی سے کسی چیز کو کھا لیتا۔ جادوگروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جادو کے ذریعے کوئی عصا کسی چیز کو نگل نہیں سکتا۔ اس میں تو صرف تخیل اور تنویم ہوتی ہے لیکن عصا نے تو درحقیقت تمام پھینکی ہوئی اشیاء کو کھالیا۔ کسی چیز کا نام و نشان میدان میں نہ تھا۔ اگر جادو ہوتا تو جادو کے اثر کے بعد تخیل کے عوام کے اختتام پر اشیاء کو موجود ہونا چاہئے تھا ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ میدان میں عملاً کچھ نہیں ہے …… ان کو یقین ہوگیا کہ حضرت موسیٰ تو ہرگز جادوگر نہیں ہیں۔ وہ پیغمبر برحق ہیں اور اس سچائی کو اس دنیا میں بہترین طور پر جاننے والے یہی جادوگر تھے۔