Você está lendo um tafsir para o grupo de versos 26:153 a 26:159
قالوا انما انت من المسحرين ١٥٣ ما انت الا بشر مثلنا فات باية ان كنت من الصادقين ١٥٤ قال هاذه ناقة لها شرب ولكم شرب يوم معلوم ١٥٥ ولا تمسوها بسوء فياخذكم عذاب يوم عظيم ١٥٦ فعقروها فاصبحوا نادمين ١٥٧ فاخذهم العذاب ان في ذالك لاية وما كان اكثرهم مومنين ١٥٨ وان ربك لهو العزيز الرحيم ١٥٩
قَالُوٓا۟ إِنَّمَآ أَنتَ مِنَ ٱلْمُسَحَّرِينَ ١٥٣ مَآ أَنتَ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا فَأْتِ بِـَٔايَةٍ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ ١٥٤ قَالَ هَـٰذِهِۦ نَاقَةٌۭ لَّهَا شِرْبٌۭ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍۢ مَّعْلُومٍۢ ١٥٥ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوٓءٍۢ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍۢ ١٥٦ فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا۟ نَـٰدِمِينَ ١٥٧ فَأَخَذَهُمُ ٱلْعَذَابُ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَـَٔايَةًۭ ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ١٥٨ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ ١٥٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

پیغمبر جس قوم میں اٹھتاہے وہ کوئی لامذہب قوم نہیں ہوتی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مذہبی قوم ہوتی ہے۔ مگر یہ مذہب اس کے بزرگوں کا مذہب ہوتاہے اور پیغمبر خدا کا مذہب پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں کے طریقے کو مقدس سمجھ کر اس پر قائم ہوں وہ کبھی کسی دوسرے طریقے کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے، خواہ وہ ان کے پیغمبر کی زبان سے کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بزرگوں کے طریقے سے انحراف قوم کی نظر میں اتنا سخت تھا کہ اس نے حضرت صالح کو دیوانہ قرار دے دیا۔ یہ کشمکش لمبی مدت تک جاری رہی۔ آخر انھوں نے مطالبہ کیا کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ جو بیک وقت معجزہ بھی تھا اور قوم کے حق میں خدا کی عدالت بھی۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو خرق عادت کے طورپر ظہور میں آئی۔ حضرت صالح نے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے۔ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں آزادانہ طورپر گھومے گی اور پانی کا گھاٹ ایک دن صرف اس کے ليے خاص ہوگا۔ قوم نے کچھ دن تک اس اونٹنی کو برداشت کیا اس کے بعد اس کے ایک سرکش آدمی نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے صرف تین دن کے بعد پوری قوم شدید زلزلہ سے ہلاک کردی گئی۔

اونٹنی کو ہلاک کرنے کا جرم قوم کے ایک شخص نے کیا تھا مگر جمع کے صیغہ میں فرمایا کہ انھوںنے اس کو ہلاک کرڈالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرنے کے وقت نہ تو قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور نہ بعد کو اپنے اس آدمی کو بُرا کہا۔ سارے لوگ اس کی حمایت میں حضرت صالح کے خلاف بولتے رہے۔ ہلاک کرنے والے نے اگر اپنے ہاتھ سے جرم کیا تھا تو بقیہ لوگ دل اور زبان سے اس کے ساتھ شریکِ جرم تھے۔ اس ليے خدا کی نظر میں سب کے سب مجرم قرار پائے۔