undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 5{ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔ } ”اور عنقریب آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ ﷺ راضی ہوجائیں گے۔“ یعنی اب بہت جلد آپ ﷺ کی محنتوں کے ایسے ایسے نتائج آپ ﷺ کے سامنے آئیں گے کہ انہیں دیکھ کر آپ ﷺ خوش ہوجائیں گے۔ 1 یہاں پر پچھلی سورت کی آخری آیت کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔ } گویا جو خوشخبری یہاں حضور ﷺ کو سنائی جارہی ہے وہی بشارت سورة اللیل میں حضرت ابوبکر رض کو دی گئی ہے۔ دونوں آیات کا اسلوب اصلاً ایک سا ہے ‘ صرف ضمیر اور صیغے کا فرق ہے۔ حضور ﷺ پر چونکہ وحی آتی تھی اس لیے آپ ﷺ کو صیغہ حاضر تَرْضٰی میں براہ راست مخاطب کیا گیا ‘ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رض کے لیے غائب کا صیغہ یَرْضٰی آیا ہے۔ ”انقباض“ کی مذکورہ کیفیت کے سیاق وسباق میں اب اللہ تعالیٰ حضور ﷺ پر اپنے احسانات جتا رہا ہے۔ یہ بھی دراصل حضور ﷺ کے لیے تسلی ہی کا ایک انداز ہے۔ جبکہ اس میں ہمارے لیے بھی راہنمائی ہے کہ جب کسی وقت آدمی پر ڈپریشن اور افسردگی کی کیفیت طاری ہو تو اسے چاہیے کہ اس کیفیت میں وہ خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو گن گن کر یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ کس کس انداز میں اس کی مدد کرتا رہا ہے اور کیسی کیسی مشکلات سے اسے نجات دلاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ماضی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے سے ایک پریشان حال آدمی کا حوصلہ بڑھتا ہے اور اس کی مثبت سوچ کو تحریک ملتی ہے۔