Je leest een tafsir voor de groep verzen 7:172tot 7:174
واذ اخذ ربك من بني ادم من ظهورهم ذريتهم واشهدهم على انفسهم الست بربكم قالوا بلى شهدنا ان تقولوا يوم القيامة انا كنا عن هاذا غافلين ١٧٢ او تقولوا انما اشرك اباونا من قبل وكنا ذرية من بعدهم افتهلكنا بما فعل المبطلون ١٧٣ وكذالك نفصل الايات ولعلهم يرجعون ١٧٤
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِىٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا۟ بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَآ ۛ أَن تَقُولُوا۟ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَـٰفِلِينَ ١٧٢ أَوْ تَقُولُوٓا۟ إِنَّمَآ أَشْرَكَ ءَابَآؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةًۭ مِّنۢ بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ ٱلْمُبْطِلُونَ ١٧٣ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْـَٔايَـٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ١٧٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ایک جانور کو اس کے ماں باپ سے الگ کردیا جائے اور اس کی پرورش بالکل علیٰحدہ ماحول میں کی جائے تب بھی بڑا ہو کر وہ مکمل طورپر اپنی نسلی خصوصیات پر قائم رہتا ہے۔ وہ اپنے تمام معاملات میں عین وہی طریقہ اختیار کرتا ہے جو اس کی جبلت (instinct) میں پیوست ہے۔ یہی معاملہ انسان کا ’’شعور رب‘‘ کے بارے میں ہے۔ انسان کی روح میں ایک خالق ومالک کا شعور اتنی گہرائی کے ساتھ جما دیا گیا ہے کہ وہ کسی حال میں اس سے جدا نہیں ہوتا۔ موجودہ زمانہ میں ایک اعتبار سے روس اور دوسرے اعتبار سے ترکی کا تجربہ بتاتا ہے کہ مکمل طورپر مخالفِ مذہب ماحول میں تربیت پانے کے باوجود انسان کی فطرت عین وہی باقی رہتی ہے جو اقرارِ مذہب کے ماحول میں ہمیشہ پائی جاتی رہی ہے۔

تاہم جانور اور انسان میں ایک فرق ہے۔ جانور اپنی فطرت کي خلاف ورزی پر قادر نہیں۔ وہ مجبور ہیں کہ عملاً بھی وہی کریں جو ان کے اندر کی فطرت انھیںسبق دے رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کا حال یہ ہے کہ شعور فطرت کی حد تک پابند ہونے کے باوجود عمل کے معاملے میں وہ پوری طرح آزاد ہے۔ جب بھی کوئی بات سامنے آتی ہے تو اس کی عقل اور اس کا ضمیر اندر سے اشارہ کرتے ہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ مگر اس کے باوجود انسان کو اختیار ہے کہ وہ چاہے اپنی اندرونی آواز کی پیروی کرے، چاہے اس کو نظر انداز کرکے مَن مانی کارروائی کرنے لگے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا امتحان ہورہا ہے اور اسی پر جنت اور جہنم کا فیصلہ ہونا ہے۔ جو شخص خدائی آواز پر کان لگائے اور وہی کرے جو خدا فطرت کی خاموش زبان میں اس سے کہہ رہا ہے، وہ امتحان میں پورا اترا۔ اس کے مرنے کے بعد ا س کے ليے جنت کے دروازے کھول ديے جائیں گے۔ اور جو شخص فطرت کی سطح پر نشر ہونے والی خدائی آواز کو نظر انداز کردے وہ خدا کی نظر میں مجرم ہے۔ اس کو مرنے کے بعد جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ خدا بھی اس کو نظر انداز کردے گا جس طرح اس نے خدا کی آواز کو نظر انداز کیا تھا۔

فطرت کی یہ آواز ہر آدمی کے اوپر خدا کی دلیل ہے۔ اب کسی کے پاس نہ تو بے خبری کا عذر ہے اور نہ کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ ماضی سے جو چلا آرہا تھا وہی ہم بھی کرنے لگے۔ جب انسان پیدائش ہی سے خدا کا شعور لے کر آتاہے اور ماحول کے علی الرغم اس کو ہمیشہ باقی رکھتا ہے تو اب کسی شخص کے پاس بے راہ ہونے کا کیا عذر ہے۔