Je leest een tafsir voor de groep verzen 6:61tot 6:62
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” نمبر 61 تا 62۔

(آیت) ” وھو القاھر فوق عبادہ “۔ (6 : 61) ” اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے ۔ “ یعنی وہ صاحب قوت بادشاہ ہے اور تمام انسان اس کی ایسی رعایا ہیں جو اس کے مکمل کنٹرول میں ہیں ۔ اس بادشاہ کی حقیقی قوت اور لوگوں کی قوت کی درمیان کوئی نسبت نہیں ہے ۔ اس کے بالمقابل نہ صرف یہ کہ ان کی کوئی قوت نہیں ہے بلکہ ان کے لئے کوئی معاون و مددگار بھی نہیں ہے سب پوری طرح اس کے غلام ہیں اور پوری طرح اس کے تابع اور زیر قبضہ ہیں ۔

یہ ہے انسان کی جانب سے ایک قاہر اور مکمل طور پر حاوی خدا کی مکمل غلامی اور یہی وہ حقیقی تصور ہے جو لوگوں کی عملی زندگی میں حقیقی تبدیلی پیدا کرتا ہے چاہے اللہ لوگوں کو مکمل آزادی اور اختیارات عطا کر دے ‘ ان کو وافر مقدار میں علم ومعرفت دے دے اور ان کو وافر مقدار میں قوت دے دے تاکہ وہ اس کرہ ارض پر فریضہ خلافت ارضی کے تقاضے پورے کرسکیں ۔ لیکن ان باتوں کے باوجود انسانی زندگی کے تمام سانس اللہ کے ہاں مقرر ہیں اور انسان کی تمام حرکات و سکنات اللہ کے اس قانون قدرت کے مطابق ہیں جو اس نے خود انسانوں کے وجود میں جاری اور ساری کردیئے ہیں اور انسان خود اپنے وجود کے ان قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ۔ اور یہ قوانین بھی نفس انسانی اور حرکات انسانی کے اندر متعین اور مقرر ہیں ۔

(آیت) ” ویرسل علیکم حفظۃ “۔ (6 : 61) ” اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کرکے بھیجتا ہے ۔ “ یہاں آیت میں ان نگرانوں کی نوعیت کو متعین نہیں کیا گیا ۔ دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ یہ نگرانی کرنے والے فرشتے ہیں جو انسانوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور وہ تمام اعمال ریکارڈ کر رہے ہیں جو انسانوں سے صادر ہوتے ہیں ۔ یہاں صرف اس امر پر روشنی ڈالنا مقصود ہے کہ ہر انسان براہ راست اللہ کی نگرانی میں ہے اور انسانی سوچ میں یہ شعور ڈالنا ہے کہ نفس انسانی کو ایک لحظہ کے لئے بھی آزاد نہیں چھوڑا جاتا اور نہ ہی وہ کسی وقت تنہا ہوتا ہے ۔ ہر وقت اس کے ساتھ ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو اس کی تمام حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرتے رہتے ہیں اور اس قدر مکمل اور جامع ریکارڈ تیار کرتے ہیں کہ ان کی نظروں سے کوئی بات بچ کر نہیں رہتی ۔ یہ ایک ایسا تصور اور ایسی سوچ ہے جس کے نتیجے میں مکمل انسانی شخصیت بیدار ہوجاتی ہے اور وہ ہر بات کو محسوس کرتی ہے ۔

(آیت) ” حتی اذا جآء احدکم الموت توفتہ رسلنا وھم لا یفرطون “۔ (6 : 61) ” یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ “ یہ اسی ربانی نگرانی کا رنگ ہے ‘ لیکن مختلف شیڈز میں ‘ یعنی ہر انسان کے لئے اس دنیا میں سانس لینے کی تعداد مقرر ہے ۔ اس کے ان سانسوں کے رک جانے کا بھی ایک وقت مقرر ہے لیکن اس کو وہ جانتا نہیں ہے ۔ انسانی زاوے سے اجل مقرر ہے ۔ لیکن اس کو وہ جانتا نہیں ہے ۔ انسانی زوایے سے اجل مقرر ہے جو اس کے لئے غیب ہے اور اس کا علم اسے کسی ذریعے سے بھی نہیں ہو سکتا ۔ لیکن اللہ کے علم میں وہ پہلے سے تحریری طور پر ثبت ہے اور ایک سیکنڈ آگے پیچھے نہیں ہو سکتی ۔ ہر شخص زندگی کے سانس پورے کر رہا ہے ۔ اس دنیا سے اس کے جانے کا وقت دور نہیں ہے بلکہ بالکل قریب ہے ‘ اس کے اندر کوئی تغیر ممکن نہیں ہے ۔ نہ اس میں بھول چوک ممکن ہے ۔ اللہ کے نمائندے تیار کھڑے ہوتے ہیں ‘ یہ فرشتے ہوتے ہیں اور ان کا نظام نہایت ہی محفوظ ہوتا ہے ۔ ہر شخص کی موت کا وقت تحریری طور ثبت ہے لیکن انسان سخت غفلت میں ہوتا ہے ۔ یہ نمائندے اپنا فرض نہایت ہی باریک بینی سے ادا کرتے ہیں ۔ وہ اپنا پیغام وقت پر پہنچاتے ہیں ۔ یہ سوچ اور یہ عقیدہ ہی ایک غافل انسان کو جھنجوڑنے کے لئے کافی اور شافی ہے ۔ اس عقیدے کا حامل انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے فیصلے اسے پوری طرح گھیرے ہوئے ہیں ۔ ہر وقت وہ یہ یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ اگلے ہی لمحے میں اس کی روح قبض ہو سکتی ہے اور اگلے ہی سانس میں اس کی حرکت قلب رک سکتی ہے ۔

(آیت) ” ثم ردوا الی اللہ مولھم الحق “۔ (6 : 62) ” پھر سب کے سب اللہ ‘ اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں ۔ “ حقیقی آقا وہی ہے جس نے انہیں یہاں اس کرہ ارض پر زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کئے اور ان پر یہاں ان کی پوری زندگی کا ریکارڈ تیار کرنے کے لئے اپنے نگران مقرر کئے جو بالکل کوئی کمی بیشی نہیں کرتے ۔ اس کے بعد وہی آقا ہے کہ جب چاہتا ہے ان انسانوں کو اپنے پاس بلا لیتا ہے تاکہ وہ ان کے بارے میں اپنی مرضی سے فیصلہ کرے اور اس کے فیصلے پر کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ۔

(آیت) ” الالہ الحکم وھو اسرع الحسبین “۔ (6 : 62) ” خبردار ہوجاؤ ‘ فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔ “ صرف وہی فیصلہ کرتا ہے ‘ وہ خود ہی حساب لیتا ہے ۔ وہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتا ۔ اور نہ جزاوسزا میں تاخیر کرتا ہے ۔ جلدی فیصلہ کرنے کے اثرات بھی انسانی زندگی پر نہایت ہی گہرے ہوتے ہیں ۔ انسان سوچتا ہے کہ اللہ کے ہاں نہ حساب میں دیر لیتا ہے اور نہ فیصلہ کرنے میں ۔

ایک مسلمان کی یہ سوچ کہ اللہ اس کا خالق ہے اور ایک دن اسے مرنے ہے اور اللہ کے سامنے اپنی پوری زندگی کا حساب و کتاب پیش کرنا ہے اسے ایک لمحہ کے لئے غافل نہیں ہونے دیتی ۔ اس سوچ کے مطابق اس کے عقائد کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ کو حقیقی حاکم سمجھنے لگتا ہے اور اس کا یہ منطقی عقیدہ ہوجاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر بندوں کے تمام امور اللہ کے حکم کے مطابق طے ہونے چاہئیں ۔

آخرت کا حساب و کتاب اور آخرت میں سزا وجزاء کے فیصلے بہرحال اس دنیا میں کیے گئے اعمال پر مرتب ہوتے ہیں اور لوگ اس دنیا میں اس وقت تک صحیح طرز عمل اختیار نہیں کرسکتے جب تک ان کے لئے کسی شریعت کی شکل میں مربوط ضابطہ عمل موجود نہ ہو جس میں ان کے لئے حلال و حرام کی حد بندی کردی گئی ہو اور جس کے اوپر ان کا اخروی حساب و کتاب ہو۔ اس طرح اس تصور حیات کے مطابق یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں بھی حاکم اللہ ہے اور آخرت میں بھی حاکم اللہ ہے ۔

اگر طے یہ کردیا جائے کہ دنیا میں اللہ کی شریعت کے سوا کوئی اور قانون رائج ہوگا تو پھر آخرت میں ان سے مؤاخذہ اور حساب و کتاب کس ضابطہ عمل پر ہوگا ؟ کیا ان کے اعمال کا موازنہ قیامت کے روز ان قوانین کے مطابق ہوگا جو دنیا میں عملا نافذ نہ تھی اور نہ یہ لوگ اپنے فیصلے اس شریعت کے مطابق کراتے تھے ؟ یہ صورت حال ہر گز ممکن نہیں ہے ۔

لوگوں کو چاہئے کہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں اور اس بات کا یقین کرلیں کہ اللہ ان سے حساب و کتاب خود اپنی شریعت کے مطابق لے گا ۔ اگر انہوں نے اپنی پوری زندگی کو اور اپنے معاملات کو اللہ کی شریعت کے مطابق نہ ڈھالا ‘ جس طرح وہ اپنے مراسم عبودیت شریعت کے مطابق بجا لاتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان سے حساب لیتے وقت سب سے پہلے اس بات کا حساب لیا جائے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا اور یہ کہ کیوں انہوں نے اللہ کے سوا کئی دوسرے الہوں کو حاکم اور شارع مقرر کیا اور تسلیم کیا ۔ صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی کو حاکم اور رب قرار کیوں نہ دیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان سے پہلا حساب یہ لیا جائے گا کہ انہوں نے اللہ کے حق حاکمیت کا انکار کیوں کیا یا انہوں نے اللہ کی شریعت کے ساتھ ساتھ دوسرے شرائع کا اتباع کرکے اور اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگی کر کے شرک کا ارتکاب کیوں کیا ؟ انہوں نے اپنی اجتماعی زندگی میں اپنے اقتصادی اور سیاسی نظام میں ‘ اپنے معاملات اور سوشل روابط میں اللہ کے سوا دوسروں کی پیروی کرکے شرک کا ارتکاب کیوں کیا جو ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرتا اور شرک کے سوا سب کوتاہیوں سے درگزر کرتا ہے ‘ اگر چاہے ۔

اب اللہ تعالیٰ انہیں عدالت فطرت میں پیش فرماتے ہیں ‘ کیونکہ خود فطرت انسانی کو حقیقت الہیہ کا شعور ہوتا ہے ۔ فطرت انسانی کا یہ خاصہ ہے کہ وہ مشکل لمحات میں بارگاہ الہیہ میں پناہ لیتی ہے ۔ قرآن ایسے بعض شدید لمحات کی تصویر کشی بڑی سرعت سے ہوتی ہے اور یہ منظر اسکرین پر آکر چلا جاتا ہے ۔ لیکن یہ منظر نہایت ہی دو ٹوک ‘ فیصلہ کن ‘ موثر اور حیران کن ہوتا ہے ۔

یہ ہولناک اور کربناک صورت حال ہمیشہ قیامت کے لئے مؤخر نہیں کردی جاتی ، کبھی کبھار اس دنیا میں بھی انسان ایسے حالات سے دوچار ہوتا ہے ۔ مثلا بحری سفر میں انسان کو جو مشکلات پیش آتی ہیں تو ان میں مشرکین بھی ہمیشہ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پھر لوگوں کو نجات دیتے ہیں ۔ لیکن جب وہ اس مشکل اور خوفناک صورت حالات سے بخیریت نکل آتے ہیں اور نارمل زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو پھر شرک کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں ۔

Maximaliseer uw Quran.com-ervaring!
Begin nu met uw rondleiding:

0%