درس نمبر 43 تشریح آیات :
44۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 57
مدینہ کی نوخیز تحریک اسلامی کا جو گھیراؤ مخالف اسلام کیمپوں نے کر رکھا تھا ‘ اس سبق کے ساتھ ان کیمپوں کے خلاف یہاں معرکہ آرائی شروع ہو رہی ہے ۔ اس سبق کے اندر اس بات پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے کہ مدینہ کے یہودی اس دین جدید اور جامعت مسلمہ کے خلاف کیا کیا اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس سے اگلے سبق میں بتایا گیا ہے کہ جماعت مسلمہ کے فرائض کیا ہیں اور یہ کہ اسلامی نظام کا مزاج کیا ہے ‘ اسلام کی تعریف کیا ہے اور ایمان کی شرائط کیا ہیں جس کی وجہ سے اسلامی زندگی اور اسلامی نظام حیات دوسرے لوگوں کی زندگی اور نظام سے متمیز ہوتا ہے ۔ اس سے پھر اگلے سبق میں جماعت مسلمہ کو خبردار کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ ‘ اپنی صورت حالات کی درستی اور اپنے وجود کو بچانے کے اقدامات کرے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس کے منافق دشمن اس کے خلاف خفیہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ جماعت مسلمہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات کی طرف بھی متوجہ ہو اور ان دفاعی اقدامات پر بھی غور کرے جو اسے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے دشمن کیمپوں کے مقابلے میں کرنے ہیں۔ اس میں قانون بین الاقوام کے سلسلے میں بعض ہدایات بھی ہیں ۔ اس کے اگلے سبق میں ایک یہودی کا معاملہ آتا ہے جس کے ساتھ اسلامی معاشرے میں تمام دشمنیوں سے بلند ہو کر معاملہ کی گیا ۔ اس سے اگلے سبق میں شرک اور مشرکین کے ساتھ دو دو ہاتھ کئے گئے ہیں اور ان بنیادوں کو حقارت آمیز انداز میں بیان کیا گیا ۔ جن کے اوپر مشرک معاشرہ قائم تھا ۔ اس معرکے کے درمیاں بعض ہدایات داخلی تنظیم کے بارے میں بھی دی گئی ہیں ۔ جن کا تعلق ‘ ابتدائے سورة کے مضامین بابت خاندانی نظام کے ساتھ ہے ۔ اب اس پارے کا آخری سبق آتا ہیں جو نفاق اور منافقین کے ساتھ خاص ہے ۔ یہ سبق فیصلہ کرتا ہے کہ منافقین آگ میں سب سے نیچے درجے میں ہوں گے ۔
ان سرسری اشارات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اس وقت تحریک اسلامی کو داخلی اور خارجی محاذوں پر کس قدر ہمہ جہت لڑائی کا سامنا تھا ۔ اور پہلی تحریک اسلامی کو کس طرح بیک وقت داخلی اور خارجی محاذوں پر کام کرنا پڑ رہا تھا ۔ اس لئے کہ داخلی محاذ اور خارجی محاذ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور پیوستہ تھے ۔ اور یہی معرکہ آج بھی عالمی تحریک اسلامی کو درپیش ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔ اس لئے کہ اسلامی تحریک کی اساس اور حقیقت ایک ہے ۔
(آیت) ” نمبر 44 تا 46۔
(سمعنا وعصینا) اور (واسمع غیر مسمع) اور (راعنا) حالانکہ اگر وہ کہتے ۔ (سمعنا واطعنا) اور (واسمع وانظرنا) تو یہ انہی کے لئے بہتر تھا اور راست بازی کا طریقہ تھا ۔ مگر ان پر تو انکی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں “۔
اس سورة میں جن متعدد جگہ تعجب کا اظہار کیا گیا ان میں سے پہلی جائے تعجب تو یہ ہے کہ اس کا خطاب رسول اللہ ﷺ کو ہے اور اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں جبکہ مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو انوکھا اور تعجب خیز ہو ۔
(آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یشترون الضللۃ ویریدون ان تضلوا السبیل “۔ (44) ” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ؟ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو ۔
چونکہ انکو کتاب دی گئی تھی اس لئے ان کے شایان شان تو یہ تھا کہ وہ فورا ہدایت قبول کرتے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے بڑے پیغمبر تھے اللہ نے انہیں تورات دی تھی ۔ تاکہ انہیں وہ ان کی ضلالت سے نکالے اور ان کے لئے نور اور ہدایت ہو ۔ لیکن وہ اپنی اس قسمت سے انکاری ہیں اور ہدایت چھوڑ کر ضلالت کے خریدار بن گئے ہیں ۔ خریداری سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے ضلالت لینے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے ‘ ان کی نیت ہی یہ ہے اسی لئے انہوں نے ہدایت کو ترک کرکے گمراہی کو پسند کیا ہے ۔ ہدایت ان کے ہاتھوں میں ہے لیکن وہ اسے چھوڑ کر گمراہی اخذ کررہے ہیں ۔ گویا وہ قصد و ارادہ سے یہ سودا کر رہے ہیں ‘ جہل اور خطا سے ایسا نہیں کررہے ۔ اس لئے ایک عقلمند آدمی سے ایسی حرکت تعجب خیز اور بالکل انوکھی ہے اور قابل استکراہ ہے ۔
لیکن اس قابل تعجب صورت حال میں ہوتے ہوئے بھی وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نگران بنے ہوئے ہیں ‘ حالانکہ الٹا وہ اس سعی میں لگے ہوئے ہیں کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہوجائیں ‘ اہل اسلام میں جو صحیح راہ پر ہیں ان کو وہ گمراہ کردیں ۔ وہ اسی مقصد کے لئے متعدد ذرائع اور وسائل اختیار کر رہے ہیں ‘ جن کی تفصیلات سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں گزر چکی ہیں ۔ اور ان کے کچھ نمونے اس سورة میں بھی آگے آرہے ہیں۔ انہوں نے خود جو گمراہی خریدی ہوئی ہے وہ اس پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ ان کے اردگرد جو شمع ہدایت روشن ہوچکی ہے وہ اسے بھی بجھانا چاہتے ہیں اور اس کے آثار تک مٹانے کے درپے ہیں کہ نہ ہدایت رہے اور نہ ہدایت پانے والے ۔
اس پہلی اور دوسری جھلکی میں اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو متنبہ کیا ہے کہ یہودی تمہارے خلاف کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اسلام کے خلاف وہ کیا کیا تدابیر اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا ہی اچھی تدبیر ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے خلاف اہل ایمان کے دلوں میں نفرت بٹھانا چاہتے ہیں ‘ جو مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے ۔ اس وقت مسلمان اس ہدایت پر فخر کرتے تھے اور وہ ان لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے جو ان کو اس قابل فخر وعزت پوزیشن سے لوٹا کر پھر جاہلیت کی طرف لے جانا چاہتے تھے ‘ جس کو وہ خوب جانتے تھے اور اسلام بھی اس جاہلیت سے اچھی طرح واقف تھا اور جو شخص بھی انہیں جاہلیت کی طرف لوٹا رہا تھا ‘ وہ اسے بہت ہی برا سمجھتے تھے ۔ اس دور میں قرآن ان لوگوں سے مخاطب تھا ‘ اللہ کے علم کے مطابق نازل ہو رہا تھا ۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی وقعت اور اہمیت تھی ۔
اس لئے اس کے بعد قرآن صراحتا بتاتا ہے کہ یہودیوں کی یہ سازش ہے اور تصریح کردی جاتی ہے کہ یہ یہودی مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اہل ایمان کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی اس مذموم کوشش کے مقابلے میں اللہ کی ہدایت اور نصرت پر ہی بھروسہ کریں ۔
(آیت) ” واللہ اعلم باعدآء کم وکفی باللہ ولیا وکفی باللہ نصیرا “۔ (45)
اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور تمہاری حمایت ومددگاری کے لئے اللہ ہی کافی ہے کہتے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ “
یوں صراحت کے ساتھ اعلان کردیا جاتا ہے کہ مدینہ میں جماعت مسلمہ اور یہودیوں کے درمیان دشمنی ہے ۔ اور ان کے درمیان متوازی خطوط متعین ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اگرچہ تعجب کا اظہار تمام اہل کتاب کے بارے میں ہیں لیکن اس آیت میں مدینہ کے یہودی ہی مراد ہیں ۔
کلام الہی نے فقط اشارہ پر اکتفا نہ کیا بلکہ یہودیون کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا اور اس کے بعد ان کی سرگرمیوں اور سازشوں اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ان کی گستاخیوں کا تفصیلا ذکر کیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات ہجرت کے ابتدائی دور کے تھے اور ابھی تک مدینہ طیبہ میں اسلام کو اس قدر شوکت اور غلبہ نصیب نہ ہوا تھا ۔
(آیت) ” من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ویقویون سمعنا وعصینا واسمع غیر مسمع وراعنا لیا بالسنتھم وطعنا فی الدین (4 : 46)
” جن لوگوں نے یہودیت کا طریقہ اختیار کیا ہے ان میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں اور دین حق کے خلاف نیش زنی کرکے اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر کہتے ہیں ۔ (سمعنا وعصینا) اور (واسمع غیر مسمع) اور (راعنا) کلام الہی کے اندر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے وہ حد سے گزر گئے تھے ۔ وہ اللہ کی شان میں بھی گستاخی کرتے تھے اور اس طرح وہ کلامی الہی کا سیدھا مفہوم کچھ سے کچھ بنا دیتے تھے ۔ اس آیت کے مفہوم میں راجح بات یہ ہے کہ وہ تورات کی عبارتوں کو اس طرح بدلتے تھے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم بدل جاتا ۔ اور اس تحریف کا بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی رسالت کے بارے میں تورات میں جو دلائل تھے ‘ ان کو تبدیل کردیں اور ان احکام اور قوانین کو بدل دیں جن کو اسلامی شریعت نے بحال رکھا اور جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ جس منبع سے تورات نازل ہوئی ہے ‘ اسی سے قرآن کریم نازل ہو رہا ہے اور نتیجتہ یہ بات ثابت ہو رہی تھی کہ نبی اکرم ﷺ کی رسالت برھق ہے ۔ اور وہ ان باتوں کو اپنے مدلول سے اس طرح بدل دیتے کہ ان کی خواہشات کے مطابق مفہوم بن جاتا اور یہ صفت ان تمام لوگوں میں پائی جاتی ہے جو اپنے دین سے منحرف ہوجاتے ہیں اور ایسی تحریفات کرتے ہیں کہ جس سے اقتدار پر قابض لوگوں کو خوش کریں ‘ یا ان عوام الناس کو خوش کریں جو دین سے اپنے آپ کو چھڑانا چاہتے ہیں ۔ یہودی ہمیشہ اس کام میں ماہر رہے ہیں اگرچہ ہمارے دور میں مسلمانوں کے اندر بھی بعض لوگوں نے یہ کام شروع کردیا ہے اور یہ لوگ اس خصلت میں یہودیوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔
پھر یہ لوگ رسول خدا ﷺ کی خدمت میں گستاخی کرتے ہوئے اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ وہ کہتے ” ہم نے سنا اور نافرمانی کی “ اس لئے ہم نہ ایمان لاتے ہیں اور نہ اتباع کرتے ہیں اور نہ اطاعت کرتے ہیں ۔ اس سے بھی اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ آیات مدینہ کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئیں جہاں یہودیوں کو حضور ﷺ کے مقابلے میں اس قدر بےباکانہ جرات ہو سکتی تھی ۔ اس ظاہری انکار کے بعد وہ نہایت ہی بےادبی ‘ نہایت ہی بداخلاقی پر اتر آئے اور حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے لگے ۔
بظاہر کہتے ہیں ۔ (اسمع) (سنئے) (غیر مسمع) آپ کوئی یہ حکم نہیں دے سکتا کہ آپ (سنئے) بظاہر تو یہ کلمہ تادیب تھا اور (راعنا) کا مفہوم یہ تھا کہ آپ ہماری رعایت کریں ‘ ہمارے حال کو مدنظر رکھیں ۔ یعنی یہ کہ وہ اہل کتاب ہیں اور انکو اسلام کی طرف اس طرح دعوت نہیں دی جانی چاہئے جس طرح عام مشرکین کو دی جاتی ہے ۔ ان اصل معنوں کو وہ زبان کے ہیر پھیر سے اس طرح بگاڑتے کہ (غیر مسمع) کا معنی یوں بن جاتا کہ آپ کی بات کوئی نہ سنے اور نہ آپ سن سکیں ۔ (اللہ انکو ذلیل کرے) اور (راعنا) کے لفظ کا اشقاق وہ رعونت سے کرتے ۔ یہ تھی انکی بےشرمی اور بےحیائی اور بےادبی اور ہیر پھیر اور مداہنت اور بات کا مفہوم بدلنا اور لفظ کا محل بدلنا وغیرہ ۔
قرآن کریم یہودیوں کی ان کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتاتا ہے کہ یہودی چونکہ اہل کتاب اور اہل ثقافت ہیں اور ان کا فرض یہ تھا کہ ان کا رویہ شریفانہ ہوتا اور تہذیب کے دائرے کے اندر وہ بات کرتے اس لئے کہ جن لوگوں کو کتاب کا حصہ ملا ہے ‘ ان کو غیر اہل کتاب کے مقابلے میں نہایت ہی سلجھا ہوا ہونا چاہئے ۔ یہ کہنے کے بعد ان کو یہ امید دلائی جاتی ہے کہ وہ ہدایت پاکر کر اچھی جزاء ‘ اللہ کی جانب سے بھلائی اور فضل وکرم کے مستحق ہوں گے بشرطیکہ وہ سیدھے راستے پر آجائیں ۔ لیکن ان کا مزاج ہی ایسا نہیں رہا ہے اور ان پر اللہ کی لعنت ہوگئی ہے اور ان کی حالت یہ ہے ۔
(آیت) ” ولوانھم قالوا سمعنا واطعنا واسطمع وانظرنا لکان خیرالھم واقوم ولکن لعنھم اللہ بکفرھم فلا یمومنون الا قلیلا “۔ (4 : 46)
” حالانکہ اگر وہ کہتے ۔ (سمعنا واطعنا ) اور (واسمع) اور (وانظرنا) تو یہ انہی کے لئے بہتر تھا اور زیادہ راست بازی کا طریقہ تھا ۔ مگر ان پر تو ان کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “
لیکن وہ سچائی کے مقابلے میں صاف اور قطعی بات نہیں کرتے اور اگر وہ صفائی کے ساتھ اس سچائی کو قبول کرتے اور صاف صاف بات کرتے اور کہتے ” ہم نے سنا اور اطاعت کی “ یا کہتے ” سنئے اور ذرا ہمارا انتظار کیجئے “ تو انکے لئے یہ بہتر ہوتا اور ان کے مزاج اور ان کی نفسیات اور حالات کے زیادہ مطابق ہوتا ۔ لیکن وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہدایت سے دور بھاگتے ہیں کم لوگ ان میں ایسے ہیں جو ایمان لاتے ہیں ۔
اللہ کی بات بہت ہی سچی ہے ۔ اسلامی نظام حیات کو یہودیوں میں سے بہت ہی کم لوگوں نے قبول کیا اور اسلام کی طویل تاریخ اس پر گواہ ہے اور یہ قیل تعداد بھی وہ تھی جس کی قسمت میں اللہ نے یہ بھلائی لکھ دی تھی ‘ اور یہ ارادہ کرلیا تھا کہ وہ راہ ہدایت پالیں ۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے سچائی تک پہنچنے کے لئے جدوجہد کی ۔ انہوں نے ہدایت پانے کے لئے سعی کی ۔ رہا یہودی فرقہ تو وہ چودہ سو سال سے اسلام کے خلاف برسرجنگ ہے ۔ جب سے مدینہ میں ‘ ان کے پڑوس میں اسلام نازل ہوا ہے ‘ اس وقت سے لے کر آج تک اسلام کے خلاف ان کی سازشیں غیر منقطع ہیں اور اسلام کے ساتھ انہیں جو بغض ہے وہ آج تک ختم نہیں ہوا ۔ ہاں اس کی شکل ‘ اس کا رنگ اور اس کا فنی انداز بدلتا رہا ہے ۔ اور آج تک اسلام کے خلاف جو سازشیں بھی کی گئیں جس میں صیلبی جنگیں اور جدید استعماریت بھی شامل ہے ‘ اس کے پیچھے یہودیوں ہی کا ہاتھ رہا ہے ‘ اور یہ سازشیں مختلف شکلوں میں رہی ہیں۔ اگر براہ راست نہیں تو اس میں یہودیوں کا حصہ اور ہاتھ ضرور رہا ہے ۔
اس کے بعد خطاب اہل کتاب یہودیوں سے ہے ۔ انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس کتاب کو قبول کرلیں جو اس کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے جو تمہارے ہاں موجود ہے ۔ انہیں سخت دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر بلاوجہ وہ قبول حق سے رودگردانی کریں گے تو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ انہیں مسخ کر کے انکے چہرے پھیر دے گا اور ان پر اسی طرح لعنت ہوگی جس طرح سبت کی خلاف ورزی کرنے والوں پر ہوئی تھی ۔ ارتکاب شرک سے انہیں منع کیا جاتا ہے اور خالص توحید کو قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے جس کی اساس پر خود ان کا دین بھی استوار ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرماتے جبکہ اس کے علاوہ تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں ‘ شرک بہرحال گناہ عظیم ہے ۔