آیت 31 { وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَلا وَنَبْلُوَا اَخْبَارَکُمْ } ”اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے یہاں تک کہ ہم ظاہر کردیں انہیں جو تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے ہیں اور ہم پوری تحقیق کرلیں تمہارے حالات کی۔“ حَتّٰی نَعْلَمَ کا لفظی ترجمہ تو یوں ہوگا کہ ہم معلوم کرلیں ‘ لیکن اہل سنت کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو پہلے سے اس کے علم میں نہ ہو۔ اس لیے ان الفاظ کی ترجمانی یونہی ہوگی کہ ہم تمہیں آزمائیں گے یہاں تک کہ ہم ظاہر کردیں اور سب کو دکھا دیں کہ تم میں سے مجاہدین کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ؟ یہ آیت پڑھتے ہوئے سورة البقرۃ کی اس آیت کو بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ } آیت 155 ”اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے“۔ سورة البقرۃ کی اس آیت کے نزول کے وقت چونکہ قتال کا حکم نہیں آیا تھا اس لیے اس میں آزمائشوں اور سختیوں کا ذکر تو ہے لیکن قتال کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے یوں سمجھئے کہ آیت زیر مطالعہ گویا سورة البقرۃ کی مذکورہ آیت کی توسیع extension ہے ‘ جس میں قتال کے حوالے سے خصوصی طور پر فرمایا گیا ہے کہ اب ہم تم میں سے واقعتاجہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو چھان پھٹک کر الگ کرنا چاہتے ہیں۔