undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 16 { وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ } ”اور ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کی کتاب ‘ حکومت اور نبوت“ { وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ } ”اور ہم نے انہیں عطا کیں بہت سی پاکیزہ چیزیں ‘ اور انہیں ہم نے تمام جہان کی قوموں پر فضیلت دی۔“ ان لوگوں کا نسبی تعلق اگرچہ حضرت ابراہیم سے ہے ‘ لیکن جس قوم کا نام بنی اسرائیل ہے وہ حضرت یعقوب کی اولاد ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ”اسرائیل“ اللہ کا بندہ تھا اور آپ علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کی اولاد سے بارہ قبیلے وجود میں آئے جو بنی اسرائیل کہلائے۔ قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کو فضیلت سے نوازے جانے کا ذکر تکرار سے آیا ہے۔ اس فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں نبوت کا وہ سلسلہ جو دو پیغمبروں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون سے شروع ہوا ‘ چودہ سو برس تک بغیر کسی وقفے اور انقطاع کے جاری رہا۔ اس دوران ان کے ہاں پے در پے نبی آئے اور نبوت کی کڑی کے ساتھ کڑی یوں ملتی گئی کہ ایک مسلسل زنجیر بن گئی۔ پھر جس طرح اس زنجیر کا آغاز دو پیغمبروں سے ہوا تھا اسی طرح اس کا اختتام بھی دو پیغمبروں یعنی حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ﷺ پر ہوا۔ بہر حال جتنے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف آئے ‘ دنیا میں کسی اور قوم کی طرف اتنے انبیاء نہیں آئے۔ اقوامِ عالم پر بنی اسرائیل کی یہ فضیلت آج بھی قائم ہے۔ بنی اسرائیل کے حوالے سے ہمارے لیے اصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جب دین کی طرف پیٹھ پھر کر ‘ دنیا میں منہمک ہوگئے ‘ عیاشیوں میں پڑگئے اور آخرت کو بھول گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضیلت کی حامل اس قوم پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی گئی : { وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ } اور اس فیصلے کا اعلان قرآن میں دو مرتبہ البقرۃ : 61 اور آلِ عمران : 112 کیا گیا۔ چناچہ بنی اسرائیل تاریخ میں آج ہمارے لیے عبرت کا سامان ہے۔ ہم پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل اور احسان فرمایا کہ ہمیں اس نے اپنے آخری رسول ﷺ کی امت بنایا اور اپنی آخری کتاب سے نوازا۔ مگر ہم نے بھی جب دین کی طرف سے پیٹھ پھیرلی اور آخرت کو بھول کر دنیا ہی کو اپنا اوڑھنا ‘ بچھونا بنا لیا تو ہمارے حصے میں بھی ویسی ہی ذلت و مسکنت آئی۔ چناچہ آج دنیا میں ڈیڑھ سو کروڑ مسلمان ہیں مگر اقوامِ عالم کے درمیان ان کی حیثیت یہ ہے کہ ع ”کس نمی پر سد کہ بھیا کیستی ؟“ آج بین الاقوامی معاملات کے بارے میں کسی بھی فورم پر مسلمان ممالک کی رائے پوچھنے کی زحمت تک نہیں کی جاتی۔ بلکہ اب تو مسلمانوں کے اپنے معاملات کی باگ ڈور بھی غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری انگریزی تقریر Turmoil in Muslim Ummah سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ‘ جبکہ اردو میں تو اس موضوع پر میری بہت سی تقاریر دستیاب ہیں۔