Je leest een tafsir voor de groep verzen 40:56tot 40:60
ان الذين يجادلون في ايات الله بغير سلطان اتاهم ان في صدورهم الا كبر ما هم ببالغيه فاستعذ بالله انه هو السميع البصير ٥٦ لخلق السماوات والارض اكبر من خلق الناس ولاكن اكثر الناس لا يعلمون ٥٧ وما يستوي الاعمى والبصير والذين امنوا وعملوا الصالحات ولا المسيء قليلا ما تتذكرون ٥٨ ان الساعة لاتية لا ريب فيها ولاكن اكثر الناس لا يومنون ٥٩ وقال ربكم ادعوني استجب لكم ان الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين ٦٠
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُجَـٰدِلُونَ فِىٓ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَـٰنٍ أَتَىٰهُمْ ۙ إِن فِى صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌۭ مَّا هُم بِبَـٰلِغِيهِ ۚ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِ ۖ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ ٥٦ لَخَلْقُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ ٱلنَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ٥٧ وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَلَا ٱلْمُسِىٓءُ ۚ قَلِيلًۭا مَّا تَتَذَكَّرُونَ ٥٨ إِنَّ ٱلسَّاعَةَ لَـَٔاتِيَةٌۭ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ٥٩ وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ٦٠
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 225 ایک نظر میں

یہ سبق اپنے موضوع اور مضمون کے اعتبار سے پوری طرح سابق سبق سے بالکل مربوط اور یکساں ہے۔ اس سبق میں وہی مضمون آگے چلتا ہے جو پہلے سبق کے آخر میں چھوڑا گیا تھا۔ حضور اکرم ﷺ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ لوگ دعوت اسلامی کی جو ناحق تکذیب کرتے ہیں۔ آپ اس پر صبر کریں۔ آپ اس پر صبر کریں۔ وہ آپ کو ایذا دیتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکتے ہیں ، یہ سب کچھ وہ اپنے جھوٹے فخرو غرور کی وجہ سے کررہے ہیں۔ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ لوگ بغیر دلیل وبرہان کے اللہ کی آیات میں کیوں جھگڑتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ہیں تو بہت چھوٹے اور بونے مگر اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور یہ کبران کے دلوں میں بیٹھا ہے اور حق کو تسلیم کرنے سے مانع ہورہا ہے۔

چناچہ ان کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ تم بڑے ہو یا اللہ کی بنائی ہوئی یہ کائنات بڑی ہے۔ ذرا آسمانوں کی دوریوں پر غور کرو اور اس زمین پر غور کروم تمہیں نظر آجائے گا کہ تم کتنے بڑے ہو۔ یہ سبق آگے بڑھتا اور اس کائنات کی بعض نشانیوں کو بیان کرتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ دیکھو ان عظیم نشانیوں کو اس چھوٹے اور کمزور انسان کے لیے مسخر کردیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انسانی ذات پر اللہ نے جو فضل وکرم کیے ہیں۔ ذرا ان پر غور کرو ، کیا یہ سب چیزیں اللہ وحدہ کے دجود اور اس کی بادشاہت اور وحدانیت پر مکمل دلیل نہیں ہیں۔ حضور اکرم ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ آپ کلمہ توحید بلند کریں اور ان الہوں سے منہ پھیرلیں جن کی پرستش یہ لوگ کرتے ہیں۔ اس سبق کا خاتمہ ایک ایسے خوفناک منظر کے ساتھ ہوتا ہے جو قیامت کے مناظر میں سے ہے۔ ان کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے وہاں ان سے پوچھا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ تمہارے الہہ۔ اور اس کا خاتمہ بھی درس سابق کے خاتمہ کی طرح نبی ﷺ کو اس تلقین پر ہوتا ہے کہ آپ صبر فرمائیں۔ چاہے اللہ آپ کو اسلامی انقلاب کا کچھ دکھاوے ، یا آپ کو اٹھالے۔ قبل اس کے کہ نصرت آئے۔ یہ معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔

درس نمبر 225 تشریح آیات

آیت نمبر 56 تا 60

یہ انسان بسا اوقات اپنے آپ کو بھول جاتا ہے ، یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اس کائنات کی ایک چھوٹی اور ضعیف مخلوق ہے۔ یہ بذات خود قوت کا سرچشمہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی قوت دراصل قوت کے اصلی سرچشمے سے اخذ کرتا ہے ، یعنی اللہ سے۔ جب اللہ سے اس کا رابطہ کٹ جا ات ہے تو پھر وہ پھولنا سوجنا شروع ہوجاتا ہے ، اونچا ہونا اور سرکش ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور اس کے دل میں یہ بیٹھنا شروع ہوجاتی ہے کہ وہ کوئی بہت بڑی چیز ہے اور اس کی یہ سوچ شیطان سے اخذ ہوتی ہے جو اس کبر ہی کے وجہ سے زاندۂ درگاہ ہوا اور پھر اللہ نے اسے انسان پر مسلط کردیا ، جس پر وہ ہر طرف سے حملہ آور ہوتا ہے۔

یہ انسان پھر اللہ کی نشانیوں کے بارے میں جھگڑتا رہتا ہے اور ہٹ دھرمی کرتا ہے۔ یہ ہٹ دھرمی ایک ایسی صفت ہے جس سے انسان کی فطرت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اس قسم کا انسان خود اپنے آپ کو اور لوگوں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ حق کے لیے تحقیق وتفتیش کررہا ہے اور بحث اس لیے کررہا ہے کہ اسے تسلی نہیں ہوئی۔ اور اسے پوراپورا یقین نہیں ہے لیکن اللہ تو اپنے بندوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ سمیع وبصیر ہے اور دل کے رازوں کا جاننے والا ہے ، یہ اللہ فیصلہ فرماتا ہے کہ یہ کبر کی وجہ سے ہے صرف اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ یہ کبر دل میں جاگزیں ہوتا ہے اور یہ کسی شخص کو ایسے مسئلے میں جھگڑے پر آمادہ کردیتا ہے جو جھگڑے کا ہوتا نہیں ہے۔ یہ کبر ہی ہے جو انسان کو ایسے کاموں میں ہاتھ ڈالنے پر آمادہ کرتا ہے جو انسان کی حقیقت سے زیادہ اونچے ہوتے ہیں ، انسان ایسے مقام تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے جو اس سے بلند ہوتا ہے اور انسانی حقیقت سے بالاتر ہوتا ہے۔ انسان کے پاس اس کے لیے نہ دلیل ہوتی ہے اور نہ وجہ جواز۔ صرف اس کبر کی وجہ سے وہ اس طرح کی اونچی پرواز شروع کردیتا ہے ، ایسے ہی لوگ ہیں۔

ان الذین۔۔۔۔ ھم ببالغیه (40: 56) ” حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی سند اور حجت کے بغیر جو ان کے پاس آئی ہو ، اللہ کی آیات میں جھگڑا رہے ہیں ، ان کے دلوں میں کبر بھرا ہے ، مگر وہ اس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جن کا وہ گھمنڈ رکھتے ہیں “۔ اگر انسان اس کائنات کو اچھی طرح سمجھ لے اور اپنی ذات کی معرفت حاصل کرلے اور اس کائنات میں اپنی حیثیت کا ادراک کرے رو وہ مطمئن ہوجائے اور اپنی حیثیت اور منصب سے آگے نہ بڑھے۔ اگر وہ یہ معلوم کرے کہ وہ ان لاتعداد موجودات میں سے ایک ہے اور جس طرح یہ پوری کائنات امرربی کی پابند ہے ، اس طرح وہ بھی ہے اور وہ بھی اللہ کے نظام قضا وقدر کے مطابق چل رہا ہے جسے صرف اللہ جانتا ہے اور یہ کہ کائنات میں اس کا کردار ایک متعین کردار ہے ، اگر انسان ان حقائق کا ادراک کرے تو وہ مطمئن اور آرام سے بیٹھ جائے اور اس کا سر قدرے جھک جانے اور اس کے اندر تواضع پیدا ہوجانے اور وہ اپنے آپ کے ساتھ ، اس کائنات کے ساتھ اور اپنے ماحول کے ساتھ نہایت امن وسلامتی کے ساتھ رہے۔

فاستعذباللہ انه ھو السمیع البصیر (40: 56) ” پس اللہ کی پناہ مانگ لو وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے “۔ کبر کے مقابلے میں اللہ کی پناہ مانگنے کا مشورہ دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بہت ہی قبیح اور قابل نفرت خصلت ہے۔ کیونکہ اللہ کی پناہ نہایت ہی قبیح اور ناپسندیدہ چیز سے مانگی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں شروفساد اور اذیت ملتی ہے۔ اور کبر میں یہ سب چیزیں موجود ہیں۔ کبر خود صاحب کبر کے لیے مصیبت ہے اور اس کے ماحول کے لیے بھی مصیبت ہے۔ جس دل میں کبر ہو ، اس کے لیے بھی اذیت ہے اور دوسروں کے دلوں کو بھی دکھانے والی عادت ہے۔ لہٰذا کبر ایک ایسا شر اور فساد ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگنا ضروری ہے۔

انه ھو السمیع البصیر (40: 56) ” وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے “۔ کبر انسان کو ایسی حرکات پر آمادہ کرتا ہے جو دیکھی جاسکتی ہیں اور انسان سے ایسی باتیں کرواتا ہے جو سنی جاسکتی ہیں اس سے بچنے کیلیے اپنے آپ کو سننے اور دیکھنے والے کی ولایت میں دے دو ۔

اس کے بعد انسان کو بتایا جاتا ہے کہ اس عظیم کائنات میں اس کا حقیقی مقام کیا ہے ، اور اللہ کی بعض مخلوقات جسے انسان

دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں وہ کس قدر چھوٹا اور کمزور ہے۔ اور یہ چیزیں جن کا یہاں ذکر ہورہا ہے۔ سدیکھتے ہی انسان ان کی ضخامت کا قائل ہوجاتا ہے۔ اور جب ان کی پوری حقیقت ان کی سمجھ میں آجائے تو ان کا شعور اور پختہ ہوجاتا ہے۔

لخلق السمٰوٰت۔۔۔۔ یعلمون (40: 57) ” آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے مقابلے میں یقیناً زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں “۔ آسمان اور زمین انسان کے سامنے بچھے ہوئے ہیں اور انسان ان کو دیکھتا ہے۔ اور انسان کی طاقت میں ہے یہ بات کہ وہ ان کے حوالے سے اپنی قدر و قیمت معلوم کرے۔ جب انسان کو اس زمین و آسمان کے حوالے سے اپنی نسبت ، آسمانوں کی دوریاں اور افلاک سماوی کے حجم کا علم ہوتا ہے تو اس کا سرجھک سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی کم مائیگی کے شعور کی وجہ سے وہ پگھل کر رہ جائے الایہ کہ وہ انسان کے اس شرف کو یاد کرے جو اللہ نے اس کے اندر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے انسان کو مکرم بنایا گیا ہے۔ وہ واحد صفت ہے جس کی وجہ سے انسان اس کائنات کی عظمت کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے کیونکہ کائنات بہت ہی عظیم اور ہولناک ہے اور وہ بہت ہی چھوٹا ہے۔

اس عظیم کائنات کے اور اوپر ایک لمحہ غور کرنا انسان کو یہ سب کچھ معلوم کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ زمین جس کے اوپر ہم رہتے ہیں۔ یہ سورج کے تابع ستاروں میں سے ایک چھوٹا ساستارہ ہے۔ اس سورج کے تابع ستاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ زمین سورج سے دس لاکھ چھوٹی ہے۔ پھر یہ سورج اس قسم کے سوملین سورجوں میں سے ایک ہے ، جو ہمارے قریب ترین کہکشاں میں ہیں۔ اور ہم بھی اسی کہکشاں میں ہیں ، اور انسانوں نے آج تک سو ملین کہکشاں دریافت کرلیے ہیں جو اس عظیم فضا میں تیر رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ اس فضا کا نہایت ہی چھوٹاحصہ ہوں۔

جہاں تک انسانی معلومات کا تعلق ہے تو انسان نے ابھی تک کائنات کے ایک مختصر اور قابل ذکر حصے کی دریافت کی ہے اور یہ چھوٹا ساحصہ بھی اس قدر بڑا ہے کہ صرف اس کے تصور ہی سے انسان کا سر چکراتا ہے۔ ہم اپنے سورج سے تقریباً 93 ملین میل دور ہیں اور یہ سورج ہماری اس چھوٹی سی زمین کے کنبے کا سرخیل ہے۔ اور یہ زمین بھی اپنی اس ماں کی جھولی سے یعنی سورج سے 93 ملین دور ہے۔ یہ زمین سورج ہی سے جدا ہوئی ہے۔

وہ کہکشاں جس کے تابع یہ سورج ہے ، اس کا قطر تقریباً ایک لاکھ ملین نوری سال ہے۔ اور نوری سال چھ سو ملین میل ہوتا ہے کیونکہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔

اور ہماری کہکشاں سے فریب ترین کہکشاں ایک لاکھ سات سو پچاس ہزار نوری سال دور ہے۔ ہمیں یہاں یہ بات پیش نظر چاہئے کہ یہ دوریاں اور حجم وہ ہیں جو اس حقیر انسان نے دریافت کرلیے ہیں اور اس کے ساتھ انسان نے یہ بھی دریافت کرلیا ہے وہ حقیقت کا نہایت ہی چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

لخلق السمٰوٰت۔۔۔۔ یعلمون (40: 57) ” آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی یہ نسبت یقیناً زیادہ بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں “۔ اللہ کی قدرت کوئی بات نہ بڑی ہے اور نہ چھوٹی ، نہ مشکل ہے اور نہ آسان۔ وہ تو ہر چیز کی تخلیق ایک کلمہ سے کرتا ہے۔ یہ صفات تو اشیاء کی ہیں۔ لوگ انہیں کم دیکھتے ہیں یا زیادہ ، آسان دیکھتے یا مشکل ۔ پھر انسان اور اس ہولناک سرچکر دینے والی کائنات کی باہم کیا نسبت ہے ؟ اس کم مائیگی کے باوجود پھر انسان کا یہ کبر !

وما یستوی۔۔۔۔ المسیئ (40: 58) ” اور یہ نہیں ہوسکتا کہ اندھا اور بینا یکساں ہوجائیں اور ایماندار اور صالح اور بدکار برابر ٹھہریں “۔ صاحب بصارت تو دیکھتا ہے اور اسے علم ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی قدروقیمت بھی جانتا ہے۔ حد سے نہیں گزرتا ، پھولتا نہیں اور نہ تکبر کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے ، اندھا نہ دیکھتا ہے اور نہ خود اپنی قدروقیمت جانتا ہے ، نہ اپنی پوزیشن جانتا ہے اور نہ اپنے ماحول کے ساتھ اپنی نسبت کو جانتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے وہ اپنے بارے میں غلط اندازہ کرتا ہے۔ پھر اپنے ماحول کے بارے میں غلط فیصلہ کرتا ہے۔ اور ان اندازوں کی وجہ سے پھر وہ راہ بھول جاتا ہے۔ اس طرح مومن و صالح اور بدکار برابر نہیں ہوسکتے۔ مومن دیکھنے والے اور جاننے والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنا اور اپنے ماحول کا صحیح اندازہ کرتے ہیں ، جبکہ کافر اور بدکار جاہل ہوتے ہیں۔ وہ ہر چیز کو برباد کردیتے ہیں ۔ اپنے آپ کو ، اپنے ماحول کو ، لوگوں کو ، اور سب سے پہلے وہ اپنے عمل اور فہم کو برباد کردیتے ہیں۔ وہ اپنے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتے ۔ اندھے ہوتے ہیں ، دلوں کے اندھے۔

قلیلا ماتتذکرون (40: 58) ” مگر تم لوگ کم ہی سمجھتے ہو “۔ اگر ہم سمجھتے تو ہمیں حقیقت معلوم ہوتی۔ بات واضح ہے۔ صرف یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم آخرت پر پختہ یقین رکھتے اور اسے یاد کرتے اور مقامات قیامت کو ذہین میں رکھتے اور وہاں کی حاضری ہمارے ذہین میں ہوتی تو ہم پختہ مومن ہوتے۔

ان الساعة ۔۔۔۔ یومنون (40: 59) ” یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں مگر اکثر لوگ نہیں مانتے “۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات میں مجادلہ کرتے ہیں اور کبر کرتے ہیں۔ ورنہ اگر مانتے اور یقین کرتے تو وہ حق کو پہنچانتے۔ وہ جانتے کہ حق کے حوالے سے ان کا کیا مقام ہے۔ اس لیے تجاوز نہ کرتے۔

صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور بندگی کرنا ، اور نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ کو پکارنا ، انسام کو اس کبر سے بچاتا ہے ، جس کی وجہ سے انسان پھول جاتا ہے اور بغیر حجت کے اللہ کی آیات میں جھگڑا کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے تاکہ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کو پکاریں اور اعلان فرماتا ہے کہ میں ہر پکارنے والے کی پکارکو قبول کرنا اپنے اوپر لکھ دیا ہے۔ اور ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو اللہ کی پکار کے مقابلے میں تکبر کرتے ہیں کہ وہ آگ میں ذلیل و خوار ہوں گے۔

وقال ربکم۔۔۔۔۔ دخرین (40: 60) ” تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو ، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے “۔ یہ یاد رہے کہ دعا کے بھی آداب ہیں اور ان کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ قلب کو اللہ کے لیے خالص ہونا چاہئے ، کوئی صورت متعین کیے بغیر مانگنا چاہئے اور اس یقین کے ساتھ مانگنا چاہئے کہ اللہ ضرور قبول فرماتا ہے۔ قبولیت کے ظروف واحوال اور زمان ومکاں متعین نہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ آداب دعا کے سراسر خلاف ہے۔ اور یہ یقین کرنا چاہئے کہ دعاء کی توفیق صرف اللہ ہی دیتا ہے۔ یہ بھی ایک انعام ہے ، قبول ہونا دوسرا انعام ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ” میں استجابت دعا کی پریشانی اٹھا کر نہیں پھرتا ، میری ذمہ داری توبہ ہے کہ دعا کروں۔ جو مجھے یہ توفیق دے دی گئی اور یہ الہام کردیا گیا کہ دعا کرو تو قبولیت ساتھ ہوتی ہے “۔ دعاء تو عارف کے دل کی بات ہوتی ہے ، عارف اس بات کو جانتا ہے کہ جس خدا نے دعا کو مقدر کیا وہی قبولیت کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ جب اللہ توفیق دے تو دعاء اور قبولیت دونوں باہم موافق اور مطابق اور ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔

جو لوگ اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے کبر کرتے ہیں تو ان کی سزا یہ ہے کہ جہنم میں خوار اور ذلیل کرکے پھینکے جائیں اور کبر کی سزا اللہ کے ہاں یہی ہے جس کی وجہ سے انسان پھولتا ہے۔ ایک چھوٹا سا انسان ، اس چھوٹی سی زمین پر اور اس چھوٹی سی زندگی میں ۔ اور یہ شخص اللہ کی عظیم تخلیق کو بھول جاتا ہے ، اللہ کی عظمت کو بھول جاتا ہے اور آخرت کو بھول جاتا ہے جبکہ یہ آنے والی ہے ، اور وہاں پھرا سے ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں گرنا ہوگا۔

جب ان لوگوں کا ذکر ہوا جو اللہ کی بندگی کرنے اور اسے پکارنے سے کبر کرتے ہیں تو اس حوالے سے اللہ کی بعض نعمتوں کا ذکر کردیا گیا۔ وہ نعمتیں جو اللہ کی عظمت کی گواہ ہیں اور اس قسم کے متکبر ان پر اللہ کا شکر نہیں بجالاتے بلکہ اللہ کی عبادت کرنے ، اسے پکارنے اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے کبر کرتے ہیں :