واذ غدوت من اهلك تبوي المومنين مقاعد للقتال والله سميع عليم ١٢١
وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ ٱلْمُؤْمِنِينَ مَقَـٰعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ١٢١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس 27 ایک نظر میں

اس سے پہلے اس سورت میں ہم مناظرہ اور مباحثہ کے میدان میں تھے ‘ بیانات اور تبصرے ہورہے تھے ‘ ہدایات اور تنبیہات کا ذکر تھا ‘ لیکن اس دوسرے سبق میں ہم کلام وبیان کے میدان سے نکل کر اب سیف وسنان کے میدان جا اترے ہیں ۔ سیف وسنان کا یہ معرکہ ٔ احد کے نام سے مشہور ہے۔

غزوہ احد صرف میدان جنگ میں ہی نہیں لڑا گیا اس معرکے کا میدان بہت ہی وسیع تھا ‘ یہ انسانی ضمیر اور عقائد کے اندر بھی برپا ہوا تھا ‘ میدان جنگ تو اس کے وسیع کارزار کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا ۔ یہ معرکہ نفس انسانی کی گہرائیوں میں ‘ انسان کے تصورات اور اس کے شعور میں ‘ انسانی خواہشات اور اس کے میلانات میں اور اس کے اقدامات اور اس کی رکاوٹوں میں برپا تھا۔ اس معرکہ کے اندر قرآن کریم نے نفس انسانی کی تربیت نہایت ہی لطیف ‘ گہرے ‘ موثر اور جامع طریقہ تربیت کے مطابق کی اور اس پر قرآن نے ان دشمنوں پر زیادہ توجہ دی جو میدان معرکہ میں اسلام کے خلاف برسر پیکار تھے ۔

اس معرکہ میں داخل ہوتے ہیں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی لیکن انجام کار یہ فتح شکست میں بدل گئی۔ آغاز فتح مبین سے ہوا اور انجام ہزیمت اور شکست وریخت سے ہوا ‘ لیکن اس شکست وریخت کے نتیجے میں مسلمانوں کو علم ومعرفت واقفیت اور تجربے کے میدان میں واضح فتح نصیب ہوئی ‘ ان کی آنکھیں کھل گئیں ‘ انہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ حقائق دیکھ لئے جنہیں قرآن نے بار بار بیان کیا تھا۔ ان کا شعور ان حقائق کے حوالے سے یقین کی حد تک پختہ ہوگیا ‘ ان کے نفوس پاک ہوگئے ‘ ان کی صفوں میں گندے عناصر چھٹ کر الگ ہوگئے ‘ اور جماعت مسلمہ آگے بڑھنے لگی ۔ وہ ان لوگوں کے بوجھ سے آزاد ہوگئی جن کے نظریات صاف ستھرے نہ تھے ‘ جن کی اقدار حیات ناپختہ تھیں ‘ جن کی فکر ڈانواڈول تھی ۔ یہ مسئلہ یوں حل ہوا کہ اسلامی صفوں سے منافقین کی اکثریت چھٹ کر الگ ہوگئی ‘ نفاق کی علامات واضح ہو کر سامنے آگئیں اور سچائی کے اوصاف نکھر کر واضح ہوگئے ۔ اقوال میں بھی اور افعال میں بھی ۔ شعور میں بھی اور طرز عمل میں بھی اس معرکے کے نتیجے میں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ایمان کے تقاضے کیا ہیں ‘ دعوت ایمانی کے تقاضے کیا ہیں ‘ اور تحریک ایمانی کو لے کر اٹھنے کے تقاضے کیا ہیں ۔ نیز اس تحریک کو لے کر چلنے کے لئے کس قدر علمی استعداد کی ضرورت ہے ‘ کس قدر یکسو ہوکر تیاری کی ضرورت ہے ‘ اور کس قدر مستحکم تنظیم کی ضرورت ہے ۔ اور اس تنظیم وانتظامات کے بعد کس قدر سنگین سمع و اطاعت کی ضرورت ہے ۔ اور تنظیم اور سمع و اطاعت کے بعد کس قدرتوکل علی اللہ کی ضرورت ہے ۔ اس راہ کے ہر قدم پر اللہ پر مکمل بھروسے کی ضرورت ہے اور پوری جدوجہد کرکے بھی نتیجہ ‘ نصرت کی شکل میں ہو یا شکست کی صورت میں ‘ اللہ پر چھوڑدینا ہے۔ زندہ رہ کر غازی ہونا یا مر کر شہید ہونا ہے ‘ کیا کرنا ہے اور کدھر جانا ہے یہ سب امور اللہ کے ہاتھ میں دے دینا ہے۔

ان واقعات کے نتیجے میں جماعت مسلمہ کے جو بیلنس شیٹ بنی اور ان واقعات کے بعد جماعت کو قرآن کریم نے جو ہدایات دیں ‘ اپنی قدر و قیمت کے اعتبار سے وہ اس مال غنیمت کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم تھیں جو فتح مبین کی صورت میں مسلمانوں کو حاصل ہوتا ‘ اس صورت میں کہ مسلمان احد کے میدان سے فتح ونصرت لے کر واپس ہوتے ۔ اس لئے کہ اس دور میں مسلمانوں کو ان تجربات کی ضرورت ہزار درجے زیادہ تھی بہ نسبت اس کے کہ وہ میدان سے فتح ونصرت اور مال غنیمت لے کر لوٹتے ۔ اس طرح جماعت مسلمہ کے بعد آنے والی امت کے لئے تجربات کا جو سرمایہ چھوڑا گیا وہ زیادہ اہم اور باقی رہنے والا تھا ‘ بہ نسبت اس فتح اور مال غنیمت کے جو فتح کی صورت میں مسلمان حاصل کرتے ۔ اس شکست کے پس منظر میں عالم بالاکا منصوبہ یہ تھا کہ اس واقعہ کے ذریعہ وہ نقائص ظاہر کردئیے جائیں جو مسلمانوں کی صفوں میں پائے جاتے تھے مثلاً ان کی جسمانی کمزوریاں ‘ اخلاقی کمزوریاں اور فکری ژولیدگی ۔ اور ظاہر ہے کہ صرف شکست کھانے کی صورت ہی میں یہ کمزوریاں ظاہر ہوسکتی تھیں ۔ عالم بالاکا منصوبہ یہ تھا کہ اس وقت ‘ اللہ کی سنت جاریہ کے مطابق ‘ ٹھیک قدرتی طور پر اور سلسلہ اسباب کے اندر ‘ مسلمانوں کو شکست ہو ‘ اور اس وقت مسلمانوں کے لئے یہ شکست زیادہ مفید تھی ‘ تاکہ جماعت مسلمہ ان تجربات سے دوچار ہو اور اسے عبرت حاصل ہو اور اس طرح اس کی عملی تربیت ہو ‘ اس کی سوچ پختہ ہوجائے اور وہ واقعات کو اپنے فطری انداز میں سمجھے ‘ نیز اس کی صفوں میں کھرے اور کھوٹے کا امتیاز ہوجائے ۔ اس کی تنظیم اور تربیت میں جو جھول پائی جاتی تھی وہ دور ہوجائے اور پھر آنے والی امت کے لئے تجربات اور واقعات کا ایک عظیم سرمایہ ریکارڈ پر آجائے ‘ جو اس قدر قیمتی ہو کہ جس کی قیمت نہ چکائی جاسکتی ہو ‘ یعنی اس معرکے میں فتح ونصرت سے بھی اس کی قیمت زیادہ ہو ۔

یہ معرکہ میدان کارزار میں ختم ہوا اور اب قرآن کریم کے صفحات میں اسے لیا گیا ‘ جو میدان جنگ سے بڑا میدان ہے ‘ پھر یہ معرکہ نفس انسانی کے میدان میں شروع ہوا اور آخر کار وہ جماعت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کے میدان میں شروع ہوا ‘ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے اس جماعت کو بنایا ‘ علم و حکمت کی اساس پر اور تجزیہ وبصیرت کی روشنی میں اور پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی اس کے مطابق یہ جماعت تیار ہوئی ۔ اسی میں اس جماعت کی بھلائی تھی کہ اسے ضرر پہنچے ‘ اسے اذیتیں دی جائیں ‘ اسے مبتلائے مصیبت کیا جائے ‘ اور اسے رنج والم سے دوچار کیا جائے ۔

اس معرکہ کے واقعات پر یہاں جو اختتامیہ دیا گیا ہے اور جو تبصرہ کیا گیا ہے اس میں جو چیز قابل التفات اور قابل تعجب ہے وہ یہ ہے کہ اس میں معرکہ کے مناظر اور واقعات کے بیان کے ساتھ ساتھ ان واقعات کے بارے میں ہدایات بھی ساتھ ساتھ موقعہ پر دی گئی ہیں اور ان ہدایات کے ساتھ ایسی ہدایات بھی دی گئیں ہیں جن سے تزکیہ نفس اور تطہیر قلب ونظر کا سامان کیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے افکار کو گرد و غبار سے صاف کیا گیا ہے ۔ ان کے افکار و تصورات کو خواہشات نفسانیہ کے قیود سے آزاد کیا گیا ہے ‘ مسلمانوں کے کردار سے طمع و لالچ ‘ بغض وکینہ ‘ حرص اور بخل ‘ پوشیدہ خواہشات اور فسق وفجور کو بڑی حکمت کے ساتھ پاک کیا گیا ہے ۔

اور ان تعقیبات اور تبصروں میں خصوصاً معرکہ کارزار کے واقعات کے اندر سودی کاروبار سے بھی بحث کی گئی ہے اور سود خوری سے روکا گیا ہے جو بظاہر بےجوڑ نظر آتی ہے اور اس کے بعد یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر اہم معاملے میں مشورہ ضرور کیا جائے ‘ اور اس پر عمل کیا جائے ‘ اس کے باوجود جنگ احد کے بارے میں جو شوریٰ ہوئی اور فیصلے ہوئے ‘ اس کے نتائج بظاہر اچھے نہ نکلے تھے اور جنگ میں شکست ہوگئی تھی ۔ یہ بات بھی قابل تعجب ہے (تفصیلی بحث بعد میں آتی ہے)

پھر اس کے بعد قرآن کریم ‘ اس موقعہ پر انسانی نفسیات پر بھی بحث کرتا ہے ‘ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو لے لیتا ہے ۔ اس زندگی کے مختلف پہلوؤں اور مختلف حرکات کے مباحث کو ایک دوسرے کے اندر ملادیا جاتا ہے ۔ یہ مختلف النوع مباحث ایک دوسرے کے ساتھ متکامل نظر آتے ہیں اور بعض اوقات یہ عجیب نظر آتے ہیں۔

لیکن جو لوگ اس ربانی طریقہ کار سے واقف ہیں انہیں وسیع اور مختلف النوع مباحث کی ملاوٹ اور ایک دوسرے کے ساتھ گذ مڈ کرنے پر کوئی تعجب نہیں ہوتا ‘ اس لئے تحریک اسلامی جس معرکہ میں کو دی ہے ‘ وہ صرف میدان کارزار ہی کا معرکہ نہیں ہے جس میں صرف اسلحہ ‘ گھوڑے اور افراد کار سازوسامان درکار ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ جنگی تدابیر اور جنگی چالیں کام میں لائی جاتی ہیں ۔ بلکہ یہ ایک وسیع اور ہمہ گیر معرکہ ہوتا ہے اور میدانی جنگ اس کا ایک حصہ یا شعبہ ہوتا ہے ۔ اصل معرکہ وہ عظیم کشمکش ہے اور تھی جو انسانی ضمیر کی دنیا میں برپا ہوتی ہے ‘ یہ کشمکش اس وقت جماعت کی اجتماعی تنظیم کے اندر برپا تھی ‘ اس معرکہ کا تعلق انسانی ضمیر کی پاکیزگی سے تھا ‘ انسانی ضمیر کو خالص اور خالی کرنا مقصود تھا ‘ اور اسے ان تمام آلودگیوں سے پاک کرنا مطلوب تھا ‘ جن سے اس کی صفائی اور پاکیزگی متاثر ہوتی تھی ۔ اور انسانی ضمیر قرب الٰہی سے دور بیٹھ جاتا تھا ۔ نیز اس معرکے کا تعلق ان تنظیمی امور سے بھی تھا جن پر جماعت مسلمہ کی زندگی کا دارومدار تھا ‘ اسلامی نظام زندگی کے مطابق ‘ یعنی وہ شورائی نظام جس پر پوری اجتماعی زندگی کی عمارت اٹھائی گئی تھی ‘ یعنی صرف نظام حکومت میں ہی نہیں بلکہ پورے اسلامی نظام حیات میں جو باہم تعاون کے اصول پر قائم ہے اور جس میں سود خوری جیسا ظالمانہ نظام ممنوع ہے اس لئے کہ سود خوری اور باہم تعاون دو متضاد اصول ہیں۔

اسلام ‘ جماعت مسلمہ کی تربیت صرف ایک میدانی جنگ کے بعد نقطہ نظر سے نہ کررہا تا ‘ بلکہ وہ اس کی تربیت اس عظیم کشمکش کے حوالے سے کررہا تھا جو وسیع تر میدان میں برپا تھی ‘ انسانی نفس کے میدان میں انسان کی عملی زندگی کے میدان میں اسلام نے ربا کی طرف توجہ کی تو اسے حرام قرار دیا ‘ وہ انفاق کی طرف متوجہ ہوا تو وہ خوشحالی ہو یا بدحالی اس پر لوگوں کو ابھارا۔ اس نے اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت کو اللہ کی رحمت کے لئے ضروری قرار دیا ۔ اس نے غصہ پینے اور عفو و درگزر کا حکم دیا ‘ اس نے احسان اور استغفار کا حکم دیا۔ گناہ پر اصرار کرنے سے منع کیا اور توبہ کا حکم دیا ۔ اور ان سب امور کو اللہ کی رضامندی کے اسباب قراردیا ۔ انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کو تمہارے لئے رحم دل کرکے بھیجا گیا۔ اس نے حکم دیا کہ مشکل سے مشکل اوقات میں شوریٰ کے اصول کو قائم رکھاجائے شوریٰ کے اصول کو قائم رکھا جائے ‘ اس نے حکم دیا کہ معاملات میں راستی کو اختیار کیا جائے اور بددیانتی نہ کی جائے ۔ دولت کو خرچ کیا جائے اور بخل وکنجوسی سے اجتناب کیا جائے ۔ غرض یہ اور دوسری ہدایات غزوہ احد پر تبصرے کے دوران فرمائی گئیں ۔

اسلام نے ان سب احکام کی طرف توجہ دی اس لئے کہ یہ وہ عناصر ہیں جن کے ذریعے جماعت مسلمہ کو وسیع تر معرکہ اور کشمکش کے لئے تیار کیا جارہا تھا۔ جس میں میدان جنگ میں قتال بھی شامل تھا مگر یہ معرکہ صرف قتال تک محدود نہ تھا بلکہ یہ وسیع تر ذمہ داریوں کا معرکہ تھا تاکہ اس کے نتیجے میں ایک عظیم انقلابی فتح حاصل کی جائے ۔ یہ عظیم اور مکمل فتح اپنی لپیٹ میں نفس انسانی ‘ اس کی تمام خواہشات ‘ اور اس کی ہر قسم کی حرص و لالچ ‘ اس کی تمام کینہ پروری کو لے لے ۔ نیز پر امن حالات میں بھی یہ جماعت مسلمہ کے لئے اقدار واطوار کے میدان میں فتح عظیم پر مشتمل ہو۔

اسلام نے ان تمام امور پر پوری توجہ کرکے یہ فیصلہ کیا کہ پوری انسانیت کی تکوین اور اس کی تشکیل اور اس کی سرگرمیوں کا جائزہ اسلامی نظریہ حیات کے نقطہ نظر کے مطابق لیا جائے اور پوری انسانیت کو ایک ہی محور کے گرد گھمایا جائے ‘ وہ محور کیا تھا ؟ یہ کے بندگی صرف اللہ کی ہوگی ‘ پرستش صرف اللہ کی ہوگی ‘ انسان پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ اللہ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ‘ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں ‘ اور اللہ کا منہاج زندگی اس پوری کائنات پر چھاجائے اور پوری انسانیت اپنے حالات میں سے ہر حال میں اسی منہاج کے مطابق زندگی بسر کرے ۔ اور انسانی زندگی کے مختلف حالات اسلامی نظام زندگی کے رابطے مربوط ہوں اور انسانی تگ ودو کے تمام نتائج بھی اسلامی منہاج کے نتائج کے مطابق ہوں اور نفس انسانی کی تمام حرکات اور تمام تنظیمات اور انسانی نظم ونسق کی تمام جزئیات ان آخری نتائج کے برآمد ممد اور مؤثر ثابت ہوں۔

اس لئے جنگ احد پر تبصرے کے درمیان کئی دوسرے مباحث پر بھی گفتگو کی گئی جو اس معرکے کے ساتھ بےجوڑ ہرگز نہیں ہیں ‘ اس لئے کہ نفس انسانی جب تک اپنے شعور وادراک اور اپنی عادات اور اخلاق میں فاتح نہ ہوگا وہ معرکہ قتال میں کبھی فاتح نہیں ہوسکتا ۔ اور وہ لوگ جو مقابلے کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے ان کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگادئیے تھے ۔ (155) اور جو لوگ نظریاتی جنگوں میں ‘ اپنے انبیاء کی قیادت میں سرخرو ہوئے تھے ‘ وہ اس لئے سرخرو ہوئے تھے کہ وہ ان معرکوں میں کودنے سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرچکے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ سے کامیابی کی التجا کے ساتھ آگے بڑھے تھے اور اللہ کے مضبوط سہارے پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان کارزار میں کودے تھے ۔ اس لئے گناہوں سے پاکیزگی ‘ اللہ کے ساتھ جڑنا ‘ اللہ پر بھروسہ رکھنا دراصل وہ سازوسامان ہے جس کے نتیجے میں نصرت اور فتح نصیب ہوا کرتی ہے ۔ اس لئے ان عوامل کو میدان جنگ سے دور نہیں کیا جاسکتا ‘ لہٰذا سودی نظام معیشت کو ختم کرکے باہم تعاون (Co-operation) کے نظام کو قائم کرنا بھی گویا فتح مندی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے ۔ سودی معاشرے کے مقابلے میں باہمی تعاون وتکافل کا معاشرہ فتح مندی سے زیادہ قریب ہے ۔ اس طرح غصے کو پی جانا اور غلطیوں کو معاف کردینا بھی سامان جنگ میں سے اہم ہتھیار ہے ‘ اپنے نفس امارہ کو قابو میں رکھنا بھی ایک قسم کی جنگی تربیت ہے ۔ معاشرہ کا معاشی لحاظ سے باہم کفیل ہونا ‘ باہم انس اور محبت رکھنا ‘ ایک دوسرے کی کو تاہیاں معاف کرنا وغیرہ بھی ایک ایسی فعال قوت عامل ہے جو فتح کی ضامن ہے ۔

ان عوامل کے ساتھ کچھ مزید حقائق بھی تھے جن پر اس سبق میں شروع سے آخر تک بھروسہ کیا گیا ہے ‘ مثلاً تقدیر الٰہی کی اہمیت اور یہ کہ اللہ نے جن باتوں کا فیصلہ کیا ہوا ہے انہوں نے وقوع پذیر ہونا ہی ہے ‘ اس لئے جو غلطی ہوگئی ‘ اس سلسلے میں اپنے تصورحیات اور اپنے خیالات کو قطعیت کے ساتھ درست کرلیا جائے کہ جو کچھ ہوا وہ سنت الٰہی ہے مطابق ہوا ‘ انسانی سرگرمیوں اور اس کی مساعی ‘ انسان کے درست طرزعمل اور اس کی غلطیوں ‘ انسان کی اطاعت امر اور اس کی معصیت ‘ اسلامی منہاج کو مضبوطی سے پکڑلینا اور اس میں کوتاہی کرنا ‘ ان سب کے نتائج سنت الٰہی کے مطابق مرتب ہوتے ہیں اور سنت الٰہی کے یہ سب مظاہر پردہ تقدیر کے پیچھے سے ٹھیک ٹھیک نمودار ہوتے ہیں اور یہ سب مشیئت الٰہی کے نمونے ہوتے ہیں اور جو کچھ واقع ہوجائے وہ اللہ کے طے شدہ فیصلے ہوتے ہیں ‘ اس لئے ان پر کوئی تأسف کرنے کی ضرورت نہیں۔

اسی نکتے کو آخر میں ‘ جماعت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے یوں بیان کیا جاتا ہے کہ اگر تمہیں فتح نصیب ہو تو اتراؤ نہیں ‘ اس میں تمہارا کچھ بھی نہیں ہے ‘ تم اللہ کی تدبیر اور اس کی تقدیر کے آلات ہو اور یوں تمہیں جہاد کے میدان میں لاکر اللہ اپنی قدرت کے نمونے دکھارہا ہے ۔ اس لئے اس تمام جدوجہد کا اجر اللہ پر ہی ہے ‘ اس لئے کہ تم اللہ کا کام کررہے ہو ‘ تمہارے لئے بطور استحقاق اس دنیا میں فتح مندی کے ثمرات میں کوئی ثمرہ لازمی نہیں ہے اور نہ فتح لازم ہے ۔ یہ تو اللہ ہے کہ جسے چاہے فتح دے اور وہ یہ فتح دنیاوی مقاصد کے لئے کبھی عطا نہیں کرتا ‘ بلکہ وہ ان مقاصد عالیہ کے لئے عطا کرتا ہے ‘ جو اس کو مطلوب ہیں ‘ اسی طرح شکست بھی جب کسی کے حصے میں آتی ہے تو وہ بھی سنت الٰہیہ کے مطابق واقعہ ہوتی ہے ‘ اور اس کے حقیقی اسباب کود جماعت مسلمہ کے اندر کمزوریوں اور کمیوں کی صورت میں موجود ہوتے ہیں اور شکست میں بھی ‘ اللہ کے علم کے مطابق کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ‘ مثلاً جماعت مسلمہ کا تزکیہ نفس ‘ اس کی صفوں سے غلط لوگوں کا چھانٹ کر الگ کرنا ‘ حقائق اور تلخ حقائق کا اظہار ‘ اعلیٰ قدروں کا استحکام اور حسن وقبح کے پیمانوں کا قیام اور آئندہ آنے والوں کے لئے عبرت اور نصیحت آموزی کے لئے نمونوں اور مثالوں کا قیام ۔

اسلام کی نظر میں عسکری کامیابی ‘ سیاسی کامیابی یا اقتصادی کامیابی کی اس وقت تک کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ‘ جب تک یہ کامیابی ربانی نظام حیات کی اساس پر نہ ہو ‘ اور اس سچائی کو غلبہ نصیب نہ ہو جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی زندگیوں میں قائم کرنا چاہتے ہیں ‘ تاکہ ہر فتح اللہ کی فتح ہو اور اسلامی نظام زندگی کے لئے ہو۔ اگر یہ صورت حال نہ ہو تو پھر جو بھی فتح ہوگی وہ جاہلیت کی فتح ہوگی کسی دوسری جاہلیت کے مقابلے میں ہوگی ‘ فتح کے نتیجے میں نہ زندگی کو کوئی فائدہ ہوگا نہ انسانیت کا کوئی بھلا ہوگا۔ بھلائی تو یہ ہوگی کہ بھلائی کے جھنڈے محض سچائی کے لئے بلند ہوں اور سچائی اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہے ‘ اس میں تعدد ممکن نہیں ہے اور وہ اسلامی اور الٰہی منہج حیات ہے ‘ جس کے علاوہ کسی اور منہاج کے لئے زندہ رہنے کیا کوئی حق نہیں ہے ۔ اور اسلامی نظام حیات کی فتح اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک یہ فتح سب سے پہلے نفس انسانی کے میدان میں واقع نہ ہو ‘ اس کے بعد انسان کی عملی زندگی میں حق کو یہ فتح نصیب نہ ہو۔ جب نفس انسانی اپنی ذات میں اپنی خودی کو گم کردے ‘ اپنی ذات سے لالچ اور خواہش نفس کو ختم کردے ‘ اسے گندگیوں اور کینہ پروری سے پاک کردے ‘ وہ پوری طرح نفسانی بندھن توڑ دے اور اس کی نظریں صرف ذات باری کی طرف اٹھ رہی ہوں اور وہ ان تمام بوجھوں اور بندھنوں سے آزاد ہوجائے جن میں وہ جکڑا ہوا ہے ‘ غرض جب وہ پوری جدوجہد کرکے اور پوری تگ ودو کے بعد اپنی ظاہری مادی قوت ‘ اپنے مادی وسائل ‘ اپنے ظاہری اسباب سے آزاد ہوکر صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے لگے ‘ اور جب وہ اپنی پوری زندگی کے معاملات میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کرے اور اللہ کی اس حاکمیت کے قیام کو اپنی تمام جدوجہد اور فتح ونصرت کا مقصد اعلیٰ سمجھے ‘ غرض جب وہ یہ تمام امور اچھی طرح مکمل کرلے توتب میدان کارزار میں اس کی عسکری کامیابی ‘ کسی ملک میں اس کی سیاسی کامیابی اور اقتصادی کامیابی صحیح فتح تصور ہوگی ‘ اور تب جاکر اس کی فتح اللہ کے نزدیک فتح ہوگی ورنہ وہ در اصل وہ ایک جاہلیت کی دوسری جاہلیت پر فتح تصور ہوگی ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قسم کی فتح کی نہ کوئی قیمت اور نہ کوئی وزن ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ معرکہ بدر پر تبصرہ کے درمیان درج بالا امور پر بھی بحث کی گئی ہے جو بظاہر بےجوڑ نظر آتی ہے ۔ متنوع امور کو اکٹھا کیا گیا ہے اور اس معرکہ پر اختتامیہ اور تبصرہ میں ان تمام امورکو شامل کیا گیا ہے ‘ اور ان امور کو اس وسیع میدان جنگ میں لایا گیا ہے ‘ جس کا ایک حصہ میدان بدر ہے ‘ جس کے بہت سے پہلوؤں میں سے احد ایک پہلو ہے ۔

........ ٭ ٭ ٭ ........

اس سے پہلے کہ ہم معرکہ احد کے واقعات پر قرآنی تبصرہ پیش کریں ‘ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ احد کے واقعات کو اس ترتیب کے ساتھ پیش کردیا جائے جس کے ساتھ وہ کتب سیرۃ میں بیان ہوئے ہیں ۔ تاکہ ہم ان مقامات کو اچھی طرح سمجھ سکیں جن پر اللہ کی جانب سے تبصرہ ہو اور ہم اس بات کا ادراک کرسکیں کہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ تربیت کیا ہے ‘ جو اللہ نے قرآن کریم میں ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے اختیار کیا ہے ؟

حالات یہ تھے کہ مسلمانوں کو بدر میں مکمل فتح نصیب ہوئی تھی ۔ اور یہ ایک ایسا واقعہ تھا اور جن ظروف واحوال میں یہ پیش آیا تھا ‘ ان میں یہ ایک بہت بڑا معجزہ نظر آتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کے ہاتھوں کفر کے علم برداروں اور بڑے بڑے سرداروں کے سر قلم کروائے ۔ جو لوگ قتل ہوئے وہ قریش کے سردار تھے ۔

اس کے بعد ابوسفیان بن حرب قریش کا سردار مقرر ہوا۔ سردار مقررہوتے ہی اس نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے تیاریاں شروع کردیں ‘ ابوسفیان کا قافلہ بدر میں مسلمانوں کا ٹارگٹ تھا ‘ جس کے پاس قریش کا کافی تجارتی مال تھا۔ اس قافلے میں وہ بچ نکلا تھا ‘ بدر کے بعد مشرکین نے یہ فیصلہ کیا کہ اس قافلے کا تمام تجارتی سامان بطور ابتدائی سرمایہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال کیا جائے۔

ابوسفیان نے تین ہزار افراد پر مشتمل ایک فوج تیار کی جو قریش ‘ اس کے حلیفوں اور حبشیوں پر مشتمل تھی ۔ ماہ شوال 3 ہجری میں وہ فوج لے کر نکلا ۔ یہ لوگ اپنے ساتھ اپنی عورتیں بھی لے کر آئے تاکہ ان کے بچاؤ کے جوش میں وہ بھاگنے کی کوشش نہ کریں ۔۔ اس نے مدینہ کا رخ کیا اور جبل احد کے قریب اس نے ڈیرے ڈالے ۔

اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشورہ کیا ۔ سوال یہ تھا کہ آپ باہر جاکر مقابلہ کریں یا مدینہ میں ٹھہر جائیں ۔ خود رسول اکرم ﷺ کی رائے یہ تھی کہ مسلمان باہر نہ نکلیں بلکہ مدینہ کے اندر قلعہ بند ہوجائیں ۔ مرد تنگ گلیوں اور مقامات جنگ پر لڑیں اور عورتیں مکانوں کی چھتوں سے جنگ میں حصہ لیں ۔ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ اس رائے میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بھی موافق اور ہم رائے تھا۔ اس پر صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی تعداد آگے بڑھی اور ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو جوان تھے اور جو بدر کی جنگ میں حصہ نہ لے سکے تھے ۔ ان لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں باہر جاکر میدان جنگ میں لڑنا چاہئے ۔ انہوں نے اپنے مشورے پر کافی اصرار بھی کیا ۔ یہ بات ظاہر ہوگئی کہ جماعت میں اکثریت کی رائے یہی ہے ۔ آپ اٹھے اور آپ اپنے مکان ‘ حجرہ عائشہ ؓ میں داخل ہوئے اور اپنی زرہ پہن کر واپس تشریف لائے ۔ اتنی دیر میں ان لوگوں کی رائے بدل چکی تھی ۔ انہوں نے سوچا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو باہر جاکر لڑنے پر خوامخواہ مجبور کردیا۔ اب انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! اگر آپ مدینہ کے اندر رہنے کو پسند فرماتے ہیں تو ایسا کرلیں ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” نبی کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ نبی جب اپنی ذرہ پہن لیتا ہے تو وہ اسے اس وقت تک نہیں اتارتا جب تک اس کے اور دشمن کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہ کردے ۔ “ یوں رسول اللہ ﷺ نے انہیں پیغمبرانہ سبق دیا اور وہ سبق یہ تھا کہ شوریٰ کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے ‘ اور جب شوریٰ کا وقت ختم ہوجائے اور عزم و ارادہ کا وقت آجائے اور طے شدہ فیصلے پر عمل کا وقت آجائے تو اس وقت صرف اللہ پر توکل کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد پھر تردد کا کوئی موقعہ نہیں ہوتا۔ نہ دوبارہ شوریٰ کا انعقاد ہوتا ہے اور نہ آراء کے بارے میں دوبارہ سوچا جاتا ہے ۔ شوریٰ کے بعد تو معاملات اپنے انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں اور اب فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو وہ چاہے ظاہر کردیتا ہے۔

اور رسول اللہ ﷺ نے خواب دیکھاتھاق کہ آپ کی تلوار ایک جگہ سے ٹوٹ کر کند ہوگئی ہے اور ایک گائے ذبح ہورہی ہے ‘ اور یہ کہ انہوں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط زرہ میں ڈالا ہے ۔ آپ نے اس خواب کی تعبیر یوں کی ‘ تلوار کند پڑنے کے معنی یہ ہیں کہ میرے خاندان میں سے کوئی شخص فوت ہوگا ‘ گائے ذبح ہونے کی تعبیر آپ نے یہ فرمائی کہ آپ کے کچھ رفقاء قتل ہوں گے اور زرہ کا مفہوم آپ نے مدینہ سے لیا۔ اس لئے اس خواب کے بعد معرکہ احد کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ‘ لیکن اس کے باوجود آپ نے شوریٰ کے طریقہ کار اور فیصلے پر عمل فرمایا ‘ نیز شوریٰ کے بعد اپنی تگ ودو کے ذریعہ فیصلوں پر عمل کیا ۔ یہ اس لئے کہ آپ ایک امت کی تربیت فرما رہے تھے ‘ اور اقوام کی تربیت وقعات و حوادث سے ہوا کرتی ہے ۔ اور تجربات کا ایک طویل سلسلہ ہوتا ہے جس کانچوڑ چند واقعات کی شکل میں نکلتا ہے ۔ مزید برآں یہ کہ آپ کے فیصلوں کے ذریعہ تقدیر الٰہی کا اظہار ہونا تھا ‘ وہ فیصلے جن پر آپ کا شعور پختہ تھا ‘ جن پر آپ کا دل مطمئن تھا ۔ اس لئے آپ تقدیر الٰہی کے مطابق کام کررہے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا دل ان واقعات کو محسوس کررہا تھا ۔

بہر حال رسول اکرم ﷺ ایک ہزار صحابہ کرام کو لے کر نکلے ‘ مدینہ میں جو لوگ رہ گئے تھے ‘ ان کو نماز پڑھانے کے لئے آپ نے ابن ام مکتوم کو مقرر فرمایا ۔ جب آپ مدینہ اور احد پہاڑ کے درمیان پہنچے تو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اس لشکر سے ایک تہائی حصہ کو لے کر واپس ہوگیا ‘ اس نے یہ کہا کہ وہ میری مخالفت کرتے ہیں اور نوجوانوں کی بات سنتے ہیں ۔ حضرت جابر کے والد عبداللہ عمروبن حرام ‘ نے ان کا پیچھا کیا ‘ انہیں سخت وسست کہا اور باصرار انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ لوٹ آئیں ۔ اس نے انہیں پکارا ” آؤ اور اللہ کی راہ میں لڑو ‘ یا کم ازکم مدافعت کرو۔ “ انہوں نے جواب دیا :” اگر ہمیں یقین ہوتا کہ آپ لڑتے ہیں تو ہم واپس نہ ہوتے ۔ “ اس پر حضرت عبداللہ انہیں خوب گالیاں دے کر واپس ہوگئے۔

اس کے بعد انصار میں سے بعض لوگوں نے یہ تجویز پیش کی ۔ اس موقعہ پر یہود سے مدد لی جائے جو ہمارے حلیف ہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس تجویز کو بھی رد کردیا ۔ اس لئے کہ یہ معرکہ دراصل کفر اور ایمان کا معرکہ تھا ‘ یہودیوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی ‘ اور فتح ونصرت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ اور یہ فتح تب آتی ہے جب اللہ پر توکل کیا جائے اور قلوب اللہ کے لئے خالص ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا :” کون لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ ان لوگوں کے مقابلے کے لئے ریگستان میں اتریں ۔ “ اس پر آپ کے ساتھ انصار میں سے کچھ لوگ نکلے تو آپ وادی کے آخری حصہ میں اترے ‘ آپ نے اپنی پیٹھ احد پہاڑ کی طرف کی اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس وقت تک جنگ شروع نہ کریں جب تک آپ حکم نہ دیں۔

جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے سات سو افراد پر مشتمل فوج کو جنگ کے لئے ترتیب دیا ۔ ان میں صرف پچاس گھوڑ سوار تھے ‘ آپ نے پچاس تیر اندازوں پر عبداللہ بن جبیر کو کمانڈر مقرر فرمایا اور ان لوگوں کو حکم دیا کہ آپ گھاٹی میں جہاں ان کی ڈیوٹی لگا رہے ہیں وہ وہاں جمے رہیں اور اس پوسٹ کو کسی حال میں خالی نہ چھوڑیں ‘ اگرچہ وہ دیکھیں کہ پرندے لشکر اسلام کا گوشت نوچ رہے ہوں ‘ یہ لوگ فوج کی پشت پر پہاڑ میں تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ مشرکین پر تیروں کی بارش کردیں تاکہ وہ پشت پر مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہوجائیں ۔

ابن عمیر کو جھنڈا دیا اور آپ ﷺ نے فوج کے ایک طرف زبیر بن العوام کو مقرر فرمایا اور دوسری طرف آپ ﷺ نے مصعب ابن عمیر کو مقرر فرمایا۔ احد کے دن نوجوانوں نے اپنے آپ کو جنگ کے لئے پیش کیا ۔ آپ نے ان کا معائنہ فرمایا اور جن کو جنگ میں حصہ لینے کے ناقابل پایا انہیں مسترد کردیا ۔ ان عبداللہ ابن عمرو ‘ اسامہ بن زید ‘ اسید بن ظہیر ‘ براء بن عازب ‘ زید بن ارقم وزید بن ثابت ‘ عرابہ ابن اوس اور عمرابن حزام تھے ۔ اور جن لوگوں کو قابل قراردیا گیا وہ سمرہ ابن جندب اور رافع بن خدیج تھے ۔ یہ پندرہ سال کے تھے ۔

قریش نے تین ہزار فوجیوں کو جنگ کے لئے تیار کیا ۔ ان میں سے دوصد گھوڑ سوار تھے ‘ انہوں نے میمنہ پر خالد ابن الولید اور میسرہ پر عکرمہ ابن ابی جہل کو مقرر کیا ۔

آج رسول اللہ ﷺ نے اپنی تلوار ابودجانہ سماک ابن حرب کو عطا فرمائی اور وہ ایک ایسے بہادر سورما تھے جو جنگ کے وقت نہایت شوکت اور تعلی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے ۔

مشرکین میں سے پہلے جو شخص نمودار ہوا وہ ابوعامر فاسق تھا۔ یہ ابوعامر رایب کے لقب سے مشہور تھا ‘ مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام ابو عامر فاسق رکھ دیا ۔ یہ شخص دورجاہلیت میں قبیلہ اوس کا سردار تھا ۔ جب اسلام آیا تو وہ اسلام کے خلاف ہوگیا اور اس نے علی الاعلان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عداوت شروع کردی ۔ اس نے مدینہ چھوڑ دیا اور قریش سے جاملا اور انہیں رسول اللہ ﷺ کے خلاف جمع کرتا رہا اور انہیں رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ پر آمادہ کرتا رہا ۔ وہ انہیں یقین دلاتا کہ اس کی قوم جب اسے دیکھے گی تو وہ اس کی بات مان کر رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ دے گی ۔ یہ سب سے پہلے مسلمانوں کے سامنے آیا۔ اس نے اپنی قوم کو پکارا ‘ اور اس نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے جواب دیا : اے فاسق اللہ آپ کو آنکھیں نہ دے ۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ میرے بعد میری قوم تباہ ہوگئی ہے ۔ اس کے بعد اس نے مسلمانوں کے ساتھ شدید جنگ کی ۔

اور جب لڑائی شروع ہوئی تو ابودجانہ نے داد شجاعت دی ۔ ان کے ساتھ ابوطلحہ ابن عبداللہ ‘ حمزہ ابن عبدالمطلب ‘ علی ابن ابی طالب ‘ نضر بن انس اور سعد ابن زبیر نے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ۔ دن چڑھتے ہی مسلمانوں نے کفار کو شکست دے دی ۔ ان میں سے انہوں نے ستر بہادر اور معتبر افراد کو قتل کردیا اور باقی دشمنان خدا ہزیمت اٹھاکر بھاگ گئے ‘ وہ کیمپ میں عورتوں کے پاس پہنچ گئے ۔ عورتوں نے اپنے کپڑے سمیٹ لئے اور بھاگنے لگیں۔

تیراندازوں نے جب دیکھا کہ کفار کو شکست ہوگئی ہے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ہیں تو انہوں نے اپنے مقامات خالی کردیئے جہاں انہیں رسول اللہ ﷺ نے مامور فرمایا تھا اور حکم دیا تھا کہ وہ انہیں ہرگز نہ چھوڑیں ۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کو پکارا کہ مال غینمت لٹ رہی ہے یارو ! ان کے امیر نے انہیں رسول اکرم ﷺ کا حکم یاددلایا مگر انہوں نے ایک نہ سنی ۔ ان کا خیال تھا کہ مشرکین اب لوٹیں گے نہیں چناچہ یہ لوگ بھی مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور گھاٹی کو انہوں نے خالی کردیا۔

خالد بن ولید کو یہ معلوم ہوا کہ گھاٹی کو تیراندازوں نے کردیا ہے ‘ اس لئے وہ مشرکین کے گھوڑ سواروں کو لے کر گھاٹی کے راستے حملہ آور ہوئے ‘ انہوں نے دیکھا کہ راستہ خالی ہے ‘ یوں خالد کی جنگی چال کامیاب ہوئی اور وہ مسلمانوں پر پشت کی جانب سے ٹوٹ پڑا اور جس وقت مشرکین اور شکست خوردہ لشکر نے دیکھا کہ خالد مسلمانوں پر چڑھ دوڑا ہے تو انہوں نے آگے کی طرف سے انہیں گھیرے میں لے لیا ۔

اب اس معرکے کی صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ‘ میدان جنگ مسلمانوں کے خلاف ہوگیا۔ مسلمانوں کی صفوں میں افراتفری مچ گئی ۔ لوگوں کے اندر اضطراب پھیل گیا اور وہ سخت خائف ہوگئے ۔ اس لئے کہ خالد کا حملہ اس قدر ہولناک اور اس قدر اچانک تھا کہ کسی کو بھی اس کی توقع نہ تھی ۔ بہت سے لوگ مارے گئے اور مسلمانوں میں سے جس کی قسمت میں شہادت لکھی ہوئی تھی وہ شہید ہوا۔ اب مشرکین کو رسول اللہ ﷺ تک راہ پانے کا موقعہ مل گیا ۔ آپ تنہاء رہ گئے تھے ‘ آپ کی حفاظت کے لئے اس قدر تھوڑے افرد رہ گئے تھے کہ انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا اور شہید ہوگئے ۔ رسول اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا ‘ آپ کے نچلے جبڑے اور دانت مبارک زخمی ہوا اور آپ کے سر پر خود ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ‘ مشرکین نے آپ کو پتھروں سے مارا ‘ یہاں تک کہ آپ ایک پہلو پر گرگئے ۔

اس کے بعد آپ ایک گڑھے میں گرگئے جو ابو عامر فاسق نے کھودا تھا اور اوپر سے ڈھانپ دیا تھا کہ مسلمان اس میں گرجائیں اور زرہ کے حلقے آپ کے چہرہ مبارک میں گھس گئے تھے ۔ اس خوفناک صورتحال کے عین درمیان کسی نے یہ آواز دی کہ حضرت محمد ﷺ شہید ہوگئے ہیں ۔ چناچہ اس خوفناک آواز نے ان کی رہی سہی قوت بھی ختم کردی ۔ چانچہ بچے کچھے مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر سن کر وہ اس قدر مایوس ہوئے اور اس قدر کبیدہ خاطر ہوئے کہ ان کی قوت نے جواب دے دیا ۔ اب انہوں نے جنگ کا خیال ہی دل سے نکال دیا۔

تمام لوگ بھاگ کھڑے ہوئے مگر انس بن نضر نہیں بھاگے ۔ وہ حضرت عمر ابن الخطاب ، طلحہ ابن عبداللہ کے پاس پہنچے جو بعض مہاجرین اور انصار کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ انہوں نے ہاتھ لٹکائے ہوئے تھے ‘ تو انہوں نے کہا : تم لوگ کیوں بیٹھے ہوئے ہو ‘ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ شہید ہوگئے ہیں ۔ تو انہوں نے کہا :” تو رسول اللہ ﷺ کے بعد زندہ رہ کر تم لوگ کیا کروگے ؟ “ اٹھو اور جس مقصد کے لئے رسول اکرم ﷺ نے جان دے دی اس کے لئے جان دے دو ۔ “ اس کے بعد انس ابن نضر کفار پر ٹوٹ پڑے ‘ اس وقت انہیں سعد ابن معاذ ملے اور انہوں نے انہیں پکار کر کہا :” سعد میں جنت کی ہوا احد کے اس پار سے محسوس کررہا ہوں۔ “ اس کے بعد انہوں نے سخت لڑائی کی یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔ ان کے جسم پر ستر سے کچھ اوپر زخم آئے تھے ‘ انہیں کوئی پہچان بھی نہ سکا ۔ آخر کار ان کی لاش کو ان کی بہن نے ان کی انگلیوں سے پہچان لیا۔

اب رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوئے ۔ سب سے پہلے انہیں خود کے نیچے سعید بن مالک نے پہچانا ۔ انہوں نے باآواز بلند چیخ لگائی ۔ اے گروہ مسلماناں ! مبارک مبارک ‘ رسول اللہ ﷺ یہ ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کیا ” خاموش رہو “ مسلمان آپ کے پاس جمع ہوگئے ۔ آپ کے ساتھ گھاٹی پر چڑھ گئے ۔ ان میں حضرت ابوبکر ۔ عمر ابن الحارث ‘ ابن صمہ انصاری وغیرہ تھے ۔ جب وہ پہاڑ پر کافی اوپر چڑھ گئے تو رسول اللہ ﷺ کو ابی ابن خلف ملا ۔ وہ اپنے عود نامی گھوڑے پر سوار تھا ۔ وہ اس گھوڑے کو مکہ میں چارہ دیتے وقت کہتا :” اس پر میں محمد کو قتل کروں گا۔ “ جب رسول اکرم ﷺ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا :” ان شاء اللہ میں اسے قتل کروں گا ‘ جب رسول ﷺ نے اسے پایا تو حارث نیزہ لیا اور اس سے اللہ کے دشمن کے سینے کی بالائی ہڈی (Collar Bon) پر وار کیا ۔ وہ اس طرح شور کرتے ہوئے بھاگا جس طرح بیل ۔ اسے یقین ہوگیا کہ وہ مارا گیا ہے ۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے پیشین گوئی کی تھی ۔ واپس ہونے سے پہلے وہ راستے ہی میں مرگیا۔

اس موقعہ پر ابوسفیان پہاڑ کے اوپر آیا اور آواز دی :” کیا تم میں محمد ہیں ؟ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے جواب نہ دو ۔ پھر اس نے کہا : کیا تم میں ابوصدیق ہیں ؟ پھر بھی مسلمانوں نے جواب نہ دیا۔” کیا تم میں عمر ابن الخطاب ہیں ؟ پھر بھی اسے کوئی جواب نہ دیا گیا ۔ اس نے صرف ان تینوں کے بارے میں پوچھا ۔ اس پر اس نے اپنی قوم سے کہا ” جہاں تک ان تین افراد کا تعلق ہے ان کا کام تم نے تمام کردیا ہے ۔ اس موقعہ پر حضرت عمر ؓ ضبط نہ کرسکے اور کہا :” اے اللہ کے دشمن ! جن کا ذکر تم نے کیا ہے وہ سب زندہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان لوگوں کو باقی رکھا ہے جنہیں تم پسند نہ کروگے ۔ اس کے بعد اس نے کہا بعض لوگوں نے شہداء کی لاشوں کو مثلہ بنایا ہے ۔ میں نے تو ان کو اس بات کا حکم نہ دیا تھا ‘ مگر ان کی اس حرکت پر میں نے برا بھی نہیں منایا ۔ (اس میں اس کا اشارہ اس واقعہ کی طرف تھا جس میں اس کی بیوی ہند نے حضرت حمزہ کی لاش کے ساتھ کیا تھا ۔ حبشی نے جب اسے قتل کیا ‘ ہند نے ان کا پیٹ پھاڑا ‘ ان کا کلیجہ نکالا ‘ اس نے اسے چبایا اور پھر پھینک دیا ۔ )

اس کے بعد اس نے نعرہ لگایا اُعلُ ہُبُل………(ہبل سربلند ہو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اسے جواب نہیں دے رہے ‘ صحابہ نے کہا ہم کیا جواب دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تم کہو اللّٰہُ اَعلٰی وَاَجَلّ……………(اللہ سربلند ہے اور جلیل القدر ہے) پھر اس نے کہا لَنَا عُزّٰی وَلَا لَکُم……………(ہمار امعبود عزیٰ ہے اور تمہارا کوئی عزیٰ نہیں) اس پر پھر رسول ﷺ نے فرمایا تم لوگ اسے جواب نہیں دے رہے ۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا جواب دیں ؟ آپ نے فرمایا تم کہو اَللّٰہُ مَولَانَا وَلَامَولَالَکُم……………(اللہ ہمارا مالک ہے اور تمہارا مالک کوئی نہیں ہے) اس پر ابوسفیان نے کہا :” آج کا دن بدر کے بدلے میں ہے ۔ “ اور جنگ میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے ۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا :” بالکل برابری نہیں ہے ‘ ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول دوزخ میں ہیں ۔ “

جب یہ معرکہ ختم ہوا تو مشرکین لوٹے ۔ اس مسلمانوں کو شک گزرا کہ شاید وہ مدینہ میں جاکر عورتوں کو غلام بنائیں گے اور لوٹ مار کریں گے ۔ یہ بات ان پر بہت ہی بھاری گزری ۔ اس رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :” علی ! تم نکلو ‘ ان کے پیچھے پیچھے جاؤ ‘ دیکھو وہ کیا کرتے ہیں ؟ ان کا ارادہ کیا ہے ؟ اگر انہوں نے گھوڑوں کو ایک طرف چھوڑا اور سامان اونٹوں پر لادا تو وہ مکہ کی طرف جارہے ہوں گے اور اگر انہوں نے اونٹوں کو چلایا اور گھوڑوں پر سوار ہوئے تو سمجھو کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کا ارادہ کررہے ہیں۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ اگر انہوں نے مدینہ کا ارادہ کیا تو میں ان کی طرف ضرور چلوں گا اور مدینہ میں ان سے لڑوں گا۔

حضرت علی فرماتے ہیں میں نکلا ‘ ان کے پیچھے چلا ‘ دیکھوں وہ کیا کرتے ہیں ؟ انہوں نے گھوڑوں کو چھوڑدیا اور اونٹوں پر سوار ہوگئے ۔ جب وہ کچھ راستہ طے کرکے آگے نکلے تو انہوں نے ایک دوسرے کو ملامت کی ۔ انہوں نے کہا تم نے کچھ بھی نہ کیا ۔ تم نے ان کی قوت کو تو ختم کردیا مگر تم نے ان کو چھوڑدیا ۔ اور ان میں سے بعض سردار ایسے رہ گئے جو تمہارے لے پھر جمع ہوں گے ۔ اس لئے یہیں سے لوٹ جاؤ اور ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو ۔ یہ بات رسول اکرم ﷺ تک پہنچی ۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں اعلان کیا اور حکم دیا کہ نکلیں اور دشمن کو راستے ہی میں جالیں ۔” اب ہمارے ساتھ وہی شخص جاسکتا ہے جو احد میں حاضر ہوا تھا۔ “ رسول اللہ ﷺ سے عبداللہ بن ابی نے درخواست کی کہ ” میں تمہارے ساتھ جاتا ہوں۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” نہیں۔ “ مسلمانوں نے اس قدر خوفناک صورت حال میں بھی آپ کی پکار پر لبیک کہا حالانکہ وہ زخموں سے چور چور تھے ۔ انہوں نے کہا :” ہم نے سنا اور مانا۔ “ حضرت جابرابن عبداللہ نے اجازت چاہی اور کہا اللہ کے رسول میں ہر مقام پر آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں مگر احد کے دن میرے والد نے مجھے روک لیا کہ میں اپنی بہنوں کی حفاظت کے لئے رہوں ۔ اس پر آپ ﷺ نے اسے اپنے ساتھ چلنے کی خصوصی اجازت دی ۔ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان مدینہ سے نکلے ۔ حمراء الاسد تک جاپہنچے ۔ یہاں آپ کو معبد ابن ابومعبد خزاعی آکر ملے ۔ یہ مسلمان ہوگئے تھے لیکن ابوسفیان کو ان کے اسلام کے بارے میں علم نہ تھا۔ رسول ﷺ نے ان سے کہا کہ وہ ابوسفیان سے ملیں اور انہیں ڈرائیں ۔ وہ مقام روحاء میں اسے ملے ۔ ابوسفیان کو اس کے مسلمان ہونے کا علم نہ تھا ۔” معبد تمہارے پیچھے کون آرہا ہے ؟ اس سے ابوسفیان نے پوچھا ۔ اس نے جواب دیا :” محمد اور اس کے ساتھی آرہے ہیں ۔ تم سے وہ جلے ہوئے ہیں اور وہ اس قدر جمعیت کے ساتھ آرہے ہیں ‘ جس قدر جمعیت ان کے ساتھ کبھی نہ نکلی تھی ۔ محمد کے جو ساتھی اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ نادم ہوگئے ہیں۔ “ اس پر ابوسفیان نے کہا :” تمہاری رائے کیا ہے ؟ “ اس نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تک تم کوچ کرتے ہو ‘ وہ لشکر اس پہاڑی کے پیچھے سے نمودار نہ ہوجائے ۔ “ اس پر ابوسفیان نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اس سے ایک بار پھر پنجہ آزمائی کریں اور ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔ اس پر معبد نے کہا :” ایسا ہرگز نہ کرو ‘ میں تمہارا ناصح مشفق ہوں ۔ اس پر وہ مکہ کی طرف واپس لوٹے ۔

راستے میں ابوسفیان کو بعض مشرکین ملے جو مدینہ جارہے تھے ۔ ابوسفیان نے کہا کیا تم محمد کو میرا یہ پیغام پہنچا دوگے ؟ اگر تم نے ایسا کیا تو میں تمہیں اور تمہارے گھوڑوں کو اپنے ہاں ٹھہراؤں گا جب تم مکہ آؤ۔ تو ان جانے والوں نے کہاں ہاں ہم پیغام دیں گے ۔ اس پر ابوسفیان نے کہا محمد کو یہ پیغام دے دو کہ ہم نے ایک بار دوبارہ جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔ حضرت محمد ﷺ اور مسلمانوں کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا حَسبُنَا اللّٰہَ وَنِعمَ الوَکِیلُ……………(ہمیں اللہ کا فی ہے اور وہ بہترین وکیل ہے ) اور اس پیغام سے ان پر کوئی اثر نہ ہوا ‘ مسلمان تین دن تک وہاں ٹھہرے اور ابوسفیان کا انتظار کرتے رہے ‘ اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ مشرکین اپنی راہ پر بہت دور جاچکے ہیں تو مسلمان مدینہ کو لوٹ آئے۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)