Je leest een tafsir voor de groep verzen 31:27tot 31:28
ولو انما في الارض من شجرة اقلام والبحر يمده من بعده سبعة ابحر ما نفدت كلمات الله ان الله عزيز حكيم ٢٧ ما خلقكم ولا بعثكم الا كنفس واحدة ان الله سميع بصير ٢٨
وَلَوْ أَنَّمَا فِى ٱلْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَـٰمٌۭ وَٱلْبَحْرُ يَمُدُّهُۥ مِنۢ بَعْدِهِۦ سَبْعَةُ أَبْحُرٍۢ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَـٰتُ ٱللَّهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ٢٧ مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍۢ وَٰحِدَةٍ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌ ٢٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ولو ان ما فی الارض ۔۔۔۔۔۔۔ ان اللہ سمیع بصیر (27 – 28)

یہ ایک ایسا منظر ہے جو انسانوں کی معلومات اور ان کے محدود مشاہدات سے لیا گیا ہے تاکہ اللہ کی مشیت کے لامحدود کارناموں کو ان کے تصور کے قریب کردیا جائے۔ اس تمثیل اور مجسم انداز کے بغیر انسانی تصور اس کا ادراک ہی نہیں کرسکتا تھا۔

انسان اپنے علم کو لکھتے ہیں اور اپنے اقوال کا ریکارڈ کرتے ہیں ، اپنے احکام کو نافذ کرتے ہیں اور قلموں کے ذریعے وہ لکھتے ہیں۔ یہ قلمیں جنگلوں اور کلک سے بناتے ہیں اور پھر سیاسی بنا کر اس سے لکھتے ہیں۔ یہ سیاہی ایک شیشی یا ایک دوات میں ہوتی ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے کہ پوری زمین کے درختوں سے قلمیں بنا دی جائیں اور تمام سمندروں کے پانی کو سیاہی میں بدل دیا جائے اور ان جیسے سات اور سمندر بھی لے آئے جائیں اور لکھنے والے بیٹھ جائیں۔ اللہ کے نئے نئے کلمات جو اللہ کے علم پر دلالت کرتے ہوں تو یہ سب سمندروں کی روشنائی ختم ہوجائے اور اللہ کے کلمات علمیہ ختم نہ ہوں اور اللہ کے علم کی انتہا نہ ہو۔ اس لیے کہ ایک محدود قوت لا محدود کو احاطہ میں لانا چاہتی ہے۔ محدود قوت جس قدر بھی آگے جائے ، بہرحال اس کی قوت ایک جگہ جاکر ختم ہوجاتی ہے اور لامحدود و غیر محیط ہی رہتا ہے۔ غرض اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوتے کیونکہ اللہ کا علم لامحدود ہے۔ اللہ کا ارادہ کسی سرحد پر نہیں رکتا۔ اور اللہ کی مشیت کے حدود وقیود نہیں ہیں۔

درخت اور سمندر غائب ہوجاتے ہیں ۔ تمام زندہ چیزیں اور تمام مردہ چیزیں غائب ہو کر ختم ہوجاتی ہیں۔ تمام حالات اور صورتیں پس پردہ چلی جاتی ہیں اور انسانی دل ، اللہ کے جلال اور قدرت کے سامنے سہما ہوا رہ جاتا ہے۔ وہ قدرت جو نہ پھرتی ہے ، نہ بدلتی ہے اور نہ غائب ہوتی ہے۔ اللہ خالق اور قوی اور مدبر اور حکیم کے سامنے انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

ان اللہ عزیز حکیم (31: 27) ” بیشک اللہ زبردست اور حکیم ہے “۔ اس سفر میں ہم ہولناک منظر کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں اور اب انسانی فکر و نظر کی تاروں پر آخری مضراب ! بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے سامنے تمام لوگوں کا دوبارہ اٹھانا بہت ہی آسان ہے۔

ما خلقکم ولا بعثکم ۔۔۔۔۔ سمیع بصیر (31: 28) ” تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جلا اٹھانا تو بس ایسا ہی ہے جیسے ایک نفس کو پیدا کرنا اور اٹھانا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے “۔ وہ ارادہ جس کے متوجہ ہوتے ہی مخلوق پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے برابر ہے کہ وہ ارادہ ایک چیز کی طرف متوجہ ہو یا بیشمار چیزوں کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ کے لیے یہ نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایک آدمی کو بناتا پھرے اور ایک ایک آدمی پر محنت کرے۔ اس کے لیے ایک آدمی کا پیدا کرنا اور بیشمار ملین لوگوں کا پیدا کرنا اور ہی طرح کا ہے۔ ایک شخص کا زندہ کرکے اٹھانا اور بیشمار بلین لوگوں کو اٹھانا اللہ کے لیے ایک ہی جیسا ہے۔ اللہ نے تو صرف ایک لفظ کن کہنا ہے۔

انما امرہ اذا ۔۔۔۔۔۔ فیکون ” اس کا حکم ، جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہے ، تو یہ ہوتا ہے کہ اسے کہہ دے کہ ہوجا ، بس وہ ہوجاتی ہے “۔ اس قدرت ، اس علم ، اور اس مہارت کے ساتھ تخلیق اور بعث بعد الموت اور حساب و کتاب کا عمل سر انجام دیا جائے گا۔ ان اللہ سمیع بصیر (31: 28) ” اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے “۔

اب اس سورة کا تیسرا سفر یا تیسرا راؤنڈ ہے۔ اور اس میں بھی وہی مسئلہ توحید زیر بحث ہے جو پہلے دو اسفار میں تھا۔ فیصلہ ہوتا ہے کہ اللہ حق ہے۔ لوگ جن شرکاء کو پکارتے ہیں وہ باطل ہیں ، عبادت صرف اللہ وحدہ کی چاہئے۔ قیامت کے دن کے بعد جو حساب و کتاب ہوگا اس میں نہ والد اپنی اولاد کا فدیہ دے سکے گا اور یہ ہی بچہ اپنے والدیں کی طرف سے کوئی بدلہ دے سکے گا۔ ان فیصلوں کے ساتھ کئی دوسرے اور جدید ایشوز نہایت موثر انداز میں لیے گئے ہیں۔ یہ سب مسائل بھی اس کائنات کے فریم و رک میں زیر بحث آتے ہیں۔