Je leest een tafsir voor de groep verzen 2:194tot 2:195
الشهر الحرام بالشهر الحرام والحرمات قصاص فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم واتقوا الله واعلموا ان الله مع المتقين ١٩٤ وانفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بايديكم الى التهلكة واحسنوا ان الله يحب المحسنين ١٩٥
ٱلشَّهْرُ ٱلْحَرَامُ بِٱلشَّهْرِ ٱلْحَرَامِ وَٱلْحُرُمَـٰتُ قِصَاصٌۭ ۚ فَمَنِ ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَٱعْتَدُوا۟ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ ١٩٤ وَأَنفِقُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلْقُوا۟ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى ٱلتَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوٓا۟ ۛ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ ١٩٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حرام مہینوں (محرم، رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ) میں یا حرم مکہ کے حدود میں لڑائی گناہ ہے۔ مگر جب مخالفین اسلام تمھارے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اس کی حرمت کو توڑدیں تو تم کو بھی حق ہے کہ قصاص کے طور پر تم ان کی حرمت کا لحاظ نہ کرو۔ مگر دشمن کے ساتھ دشمنی میں تم کو اللہ سے بے خوف نہ ہوجانا چاہيے۔ کسی حد کو توڑنے میں تم اپنی طرف سے ابتدا نہ کرو اور نہ کوئی ایسا اقدام کرو جو ضروری حد سے زیادہ ہو— اللہ کی مدد کسی کو اسی وقت ملتی ہے جب کہ وہ اشتعال کے اوقات میں بھی اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کا پابند بنا رہے۔

قصاص اور ظلم میں یہ فرق ہے کہ قصاص فریق ثانی کی طرف سے کی ہوئی زیادتی کے برابر اور اس کے بقدر ہوتاہے۔ جب کہ ظلم ان حد بندیوں سے باہر نکل جانے کا نام ہے۔ ایک شخص کو کسی سے تکلیف پہنچے تو وہ دوسرے کو اتنی ہی تکلیف پہنچا سکتاہے جتنی اس کو پہنچی ہے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ نصیحت بری لگے تو گالی اور استہزاء سے اس کا جواب دینا یا زبان وقلم کی شکایت کے بدلے میں جارحیت دکھانا تقویٰ کے سراسر خلاف ہے۔ اسی طرح مالی نقصان کے بدلے جانی نقصان، معمولی چوٹ کے بدلے زیادہ بڑی چوٹ، ایک قتل کے بدلے بہت سے آدمیوں کا قتل، اس قسم کی تمام چیزیں ظلم کی تعریف میں آتی ہیں۔ مسلمان کے لیے برابر کا بدلہ (قصاص) جائز ہے مگر ظلم کسی حال میں جائز نہیں۔

اللہ کی راہ میں جدوجہد سب سے زیادہ جس چیز کا تقاضا کرتی ہے وہ مال ہے۔ اور مال کی قربانی بلاشبہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ اس ليے حکم دیاکہ اللہ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اس کی راہ میں خوب مال خرچ کرو اور اس کام کو اس کی بہترسے بہتر صورت میں انجام دو۔ ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ سے مراد بخل ہے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو، کیوں کہ خرچ میں دل تنگ ہونا دنیا و آخرت کی بربادی ہے۔ آدمی مال خرچ کردینے کو ہلاکت سمجھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا ہلاکت ہے۔آدمی کے پاس جو کچھ ہے اگر وہ اس کو اللہ کے حوالے نہ کرے تو اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ کیوں اس کو آدمی کے حوالے کرے گا۔

آدمی اپنی دولت کا استعمال صرف یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کو اپنی ذات پر یا اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ مگر اس ذہن کو قرآن ہلاکت بتاتا ہے۔ اس کے بجائے دولت کا صحیح استعمال یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ دین کی ضرورتوں میں خرچ کیا جائے۔ مال کو صرف اپنے ذاتی حوصلوں کی تکمیل میں خرچ کرنا فرد اور معاشرہ کو خداکے غضب کا مستحق بناتا ہے۔ اس کے برعکس، جب مال کو اللہ کے دین کی راہ میں خرچ کیا جائے تو فر د اور جماعت دونوں اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں کے مستحق بنتے ہیں۔ خرچ کرنے والے کو اس کا فائدہ بے شمار صورتوں میں دنیا میں بھی حاصل ہوتا ہے اور آخرت میں بھی۔