۞ ان الانسان خلق هلوعا ١٩
۞ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ خُلِقَ هَلُوعًا ١٩
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 19{ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا۔ } ”یقینا انسان پیدا کیا گیا ہے تھڑدلا۔“ یہ انسان کی فطری اور جبلی کمزوری ہے کہ وہ تھڑدلا اور بےصبرا ہے۔ قرآن مجید میں انسان کی کئی اور کمزوریوں کا ذکر بھی آیا ہے ‘ مثلاً : { وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا۔ } النساء کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ سورة الاحزاب کی آیت 72 میں انسان کو ظَلُوْمًا جَھُوْلًا قرار دیا گیا ہے ‘ جبکہ سورة الانبیاء کی آیت 37 میں انسان کی طبعی عجلت پسندی کا ذکر آیا ہے : { خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍط }۔ ظاہر ہے ایک انسان جسم اور روح سے مرکب ہے۔ انسان کے جسم کا تعلق عالم خلق سے ہے ‘ جبکہ انسانی روح کا تعلق عالم امر سے ہے : { وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ } بنی اسراء یل : 85 ”اور اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔ آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے“۔ چناچہ مذکورہ سب کمزوریوں کا تعلق انسان کی جسمانی خلقت سے ہے۔ جہاں تک انسانی وجود کے اصل حصے یعنی اس کی روح کا تعلق ہے ‘ بنیادی طور پر اس کا مقام بہت بلند ہے اور اس میں ایسی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ انسان کی تخلیق کے اس پہلو کا ذکر سورة التین کی اس آیت میں آیا ہے : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ } ”بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا“۔ لیکن افسوس کہ ہم انسانوں کی اکثریت اپنی روح سے بیگانہ ہوچکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ کی یاد سے غفلت ہے۔ جو انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر اسے خود اپنی ذات روح سے غافل کردیتا ہے۔ سورة الحشر کی آیت 19 میں اہل ایمان کو اس حوالے سے یوں متنبہ کیا گیا ہے : { وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْط } ”اے مسلمانو دیکھنا ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔“