undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 32 وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَعِبٌ وَّلَہْوٌ ط۔اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ دنیا کی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ‘ بلکہ تقابل میں ایسا کہا جاتا ہے کہ آخرت کے مقابلے میں اس کی یہی حقیقت ہے۔ ایک شے ابدی ہے ‘ ہمیشہ ہمیش کی ہے اور ایک شے عارضی اور فانی ہے۔ ان دونوں کا آپس میں کیا مقابلہ ؟ جیسے دعائے استخارہ میں الفاظ آئے ہیں : فَاِنَّکَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ اے اللہ ! تو ہی سب کچھ جانتا ہے ‘ میں کچھ نہیں جانتا۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ انسان کے پاس کوئی بھی علم نہیں ہے ‘ لیکن اللہ کے علم کے مقابلے میں کسی دوسرے کا علم کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح یہاں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو لعب اور لہو قرار دیا گیا ہے۔ ورنہ دنیا تو ایک اعتبار سے آخرت کی کھیتی ہے۔ ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الآخِرَۃِ 1 ‘ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں بوؤگے تو وہاں کاٹو گے۔ اگر یہاں بوؤ گے نہیں تو وہاں کاٹو گے کیا ؟ یہ تعلق ہے آپس میں دنیا اور آخرت کا۔ اس اعتبار سے دنیا ایک حقیقت ہے اور ایک امتحانی وقفہ ہے۔ لیکن جب آپ تقابل کریں گے دنیا اور آخرت کا تو دنیا اور اس کا مال و متاع آخرت کی ابدیت اور اس کی شان و شوکت کے مقابلے میں گویا نہ ہونے کے برابر ہے۔ دنیا تو محض تین گھنٹے کے ایک ڈرامہ کی مانند ہے جس میں کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے اور کسی کو فقیر۔ جب ڈرامہ ختم ہوتا ہے تو نہ بادشاہ سلامت بادشاہ ہیں اور نہ فقیر فقیر ہے۔ ڈرامہ ہال سے باہر جا کر کپڑے تبدیل کیے اور سب ایک جیسے بن گئے۔ یہ ہے دنیا کی اصل حقیقت۔ چناچہ اس آیت میں دنیا کو کھیل تماشا قرار دیا گیا ہے۔وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ اب وہ مقام آگیا ہے جسے میں نے اس سورة کے عمود کا ذروۂ سنام climax قراردیا تھا۔ یہاں ترجمہ کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے ‘ لیکن ہمیں ترجمانی کی کوشش تو بہر حال کرنی ہے۔

Maksimakan pengalaman Quran.com anda!
Mulakan lawatan anda sekarang:

0%