مومن کی زندگی ایک پابند زندگی ہے۔ وہ دنیا میں آزاد ہے کہ جو چاہے کرے اس کے باوجود وہ اللہ کی آقائی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو پابند بنا لیتا ہے، وہ اپنے آپ کو از خود عہد کی رسّی میں باندھ لیتا ہے۔ اللہ کا معاملہ ہو یا بندوں کا معاملہ، دونوں قسم کے معاملات میں اس نے اپنے کو پابند کرلیا ہے کہ وہ آزادانہ عمل نہ کرے بلکہ خدا کے حکم کے مطابق عمل کرے۔ وہ انھیں چیزوں کو اپنی خوراک بنائے جو خدا نے اس کے لیے حلال کی ہیں اور جو چیزیں خدا نے حرام کی ہیں ان کو کھانا چھوڑ دے۔ کسی موقع پر اگر کسی جائز چیز سے بھی روک دیا جائے جیسا کہ احرام کی حالت میں یا حرام مہینوں کے بارے میں حکم سے واضح ہوتا ہے تو اس کو بھی بے چون وچرا مان لے۔ کوئی چیز کسی دینی حقیقت کی علامت بن جائے تو اس کا احترام کرے۔ کیوں کہ ایسی چیز کا احترام خود دین کا احترام ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے خوف سے کرے، نہ کہ کسی اور جذبے سے۔
آدمی عام حالات میں اللہ کے حکموں پر عمل کرتا ہے۔ مگر جب کوئی غیر معمولی حالت پیدا ہوتی ہے تو وہ بدل کر دوسرا انسان بن جاتا ہے۔ اللہ سے ڈرنے والا یکایک اللہ سے بے خوف انسان بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ موقع وہ ہے جب کہ کسی کی کوئی مخالفانہ حرکت اس کو مشتعل کردیتی ہے۔ ایسے موقع پر آدمی انصاف کی حدوں کو بھول جاتا ہے اور یہ چاہنے لگتا ہے کہ جس طرح بھی ہو اپنے حریف کو ذلیل اور ناکام کرے۔ مگر اس قسم کی معاندانہ کارروائی خدا کے نزدیک جائز نہیں، حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ مسجد حرام کی زیارت جیسے پاک کام سے کسی نے دوسرے کو روکا ہو۔کوئی شخص اس قسم کی ظالمانہ کارروائی کرنے کے لیے اٹھے اور کچھ لوگ اس کا ساتھ دینے لگیں تو یہ گناہ کی راہ میں کسی کی مدد کرنا ہوگا۔ جب کہ اللہ سے ڈرنے والوں کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ صرف نیکی کے کاموں میں دوسرے کی مدد کریں۔ جو شخص حق پر ہو اس کا ساتھ دینا اور جو ناحق پر ہو اس کا ساتھ نہ دینا، موجودہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ مگر اسی مشکل کا م پر آدمی کے اُخروی انجام کا فیصلہ ہونے والا ہے۔