(آیت) ” نمبر 101 تا 102۔
بعض صحابہ کرام ؓ اجمعین حضور ﷺ سے بہت سوالات کرتے تھے ‘ اور یہ سوالات ان باتوں کے متعلق ہوتے تھے جن میں کوئی امر یا نہی نازل نہ ہوئی تھی ۔ یہ لوگ بعض ایسے معاملات کی تفصیل میں زیادہ دلچسپی لیتے جن کو قرآن نے مجمل چھوڑا تھا اور اس اجمال کی وجہ سے لوگوں پر ایک قسم کی سہولت تھی ۔ بعض اوقات وہ ایسے معاملات کے بارے میں پوچھتے جن کے جوابات کی ضرورت ہی نہ تھی ‘ کیونکہ یہ ممکن تھا کہ خود سائل کو وہ انکشاف اچھا نہ لگے ۔ یہ اس سے دوسرے مسلمانوں کو اذیت ملے ۔
روایات میں آتا ہے کہ فرضیت حج کی آیت پر کسی نے یہ پوچھا کہ کیا ہر سال حج فرض ہوگیا ہے ؟ تو حضور نے اس سوال پر بہت ہی ناراضگی کا اظہار فرمایا کیونکہ آیت حج میں اجمال تھا ۔
(آیت) ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ اللہ کی جانب سے لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے ‘ اس پر جو راستے کی استطاعت رکھتا ہو۔ زندگی میں ایک بار حج کرکے اس آیت پر عمل ہوسکتا تھا ۔ اس طرح اگر حضور اس آیت کی یہ تفسیر کردیتے کہ ” ہر سال “ تو اس سے بہت سی مشکلات پیدا ہوجاتیں حالانکہ اللہ نے لوگوں کو ان میں ڈالنا مناسب نہ سمجھا تھا ۔
ترمذی اور دارقطنی نے حضرت علی ؓ سے ایک حدیث مرسل روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ۔
(آیت) ” وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا “ تو لوگوں نے پوچھا حضور ہر سال میں ؟ تو آپ خاموش ہوگئے ۔ انہوں نے دوبارہ پوچھا کیا ہر سال میں ؟ تو آپ نے فرمایا ” نہیں اگر میں کہتا کہ ” ہاں “ تو یہ ہمیشہ کے لئے فرض ہوجاتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
(آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم ) دارقطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لوگو تم پر حج فرض کردیا گیا ہے ۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور سوال کردیا کہ کیا ہر سال ؟ حضور ﷺ نے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اس کے بعد اس نے پھر سوال کیا ” حضور ہر سال ؟ “ تو حضور ﷺ نے پوچھا یہ سائل کون ہے ؟ تو لوگوں نے بتلایا کہ فلاں فلاں ہے ۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں کہہ دیتا ہاں تو یہ ہر سال واجب ہوجاتا اور اگر ہر سال واجب ہوتا تو تم ہر گز اسے ادا نہ کرسکتے اور اگر تم نہ کرسکتے تو کافر ہوجاتے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
(آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم ) ایک دوسری حدیث کا مضمون یہ ہے ‘ اور یہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کی ہے ۔ وہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آپ ﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا جب تک میں اس جگہ کھڑا ہوں پوچھو جو پوچھتے ہو ۔ میں تمہیں اطلاع دوں گا ۔ “ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا : حضور ﷺ میں کہاں داخل ہوں گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” آگ میں “ ۔ عبداللہ ابن حذافہ ؓ نے پوچھا : میرے باپ کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا تمہارا باپ حذافہ ہے ۔ (ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ عبداللہ ابن حذافہ قدیم الاسلام تھے ۔ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ‘ بدر میں شریک ہوئے ‘ یہ نہایت ہی خوش مزاج تھے ، حضور ﷺ نے انہیں کسری کے پاس پیغام دے کر بھیجا تھا ۔ جب حضور ﷺ کے ساتھ اس کا یہ سوال و جواب ہوا کہ میرا باپ کون ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا حذافہ تو اس کی ماں نے کہا میں نے تم جیسا نافرمان بیٹا نہیں دیکھا ۔ ” کیا تم کو یہ اطمینان تھا کہ میں نے جاہلیت کی عورتوں کی طرح گناہ کا ارتکاب نہیں کیا ؟ تم مجھے مجمع عام میں شرمندہ کرنا چاہتے تھے ؟ اس پر عبداللہ نے کہا : ” خدا کی قسم اگر حضور ﷺ مجھے ایک کالے غلام کا بیٹا بتلاتے تو میں اس کے ساتھ اپنا نسب ملا دیتا۔ “
ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے ۔ ایک دن حضور ﷺ نہایت ہی جلال میں تھے آپ ﷺ کا چہرہ سرخ تھا ۔ آپ منبر پر بیٹھے ۔ ایک شخص نے پوچھا حضور ﷺ میں کہاں ہوں گا تو آپ نے فرمایا ” آگ میں “۔ ایک دوسرا اٹھا اور پوچھا میرا باپ کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا باپ ” حذیفہ “ ہے اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ اٹھے اور فرمایا حضور ﷺ ہم اس بات پر راضی ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور محمد ﷺ ہماری نبی ہیں اور قرآن ہمارا امام ہے ۔ حضور ﷺ ہم تو ابھی ابھی جاہلیت سے اور شرک سے نکلے ہیں ۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کون ہیں ؟ اس پر حضور ﷺ کا غضب ٹھنڈا ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی ۔
(آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسوکم )
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ‘ ۔ مجاہد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت فرمائی ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام کے بارے میں پوچھا تھا ۔ سعید ابن جبیر ؓ نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس آیت کے بعد اسی وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی ۔
(آیت) ” مَا جَعَلَ اللّہُ مِن بَحِیْرَۃٍ وَلاَ سَآئِبَۃٍ وَلاَ وَصِیْلَۃٍ وَلاَ حَامٍ (5 : 103)
ان روایات میں وہ تمام سوالات آگئے ہیں جن کے بارے میں پوچھنے سے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو منع فرمایا ۔
قرآن کریم کا مقصد یہ نہ تھا کہ محض عقیدہ اور نظریہ ہی بیان کر دے یا ایک شرعی قانون نافذ کرے ۔ بلکہ قرآن کریم کے پیش نظر ایک امت کی تربیت کرنا تھا ۔ ایک معاشرہ وجود میں لانا تھا ۔ قرآن کریم افراد کو بتا رہا ہے تھا کہ ان کی نشوونما اور تربیت معقول اخلاقی اصولوں پر کی جانی مطلوب تھی ۔ یہاں قرآن کریم نے سوالات کے آداب بتلائے ہیں ۔ بحث و مباحثہ کی حدود کا تعین کیا ہے ۔ علم ومعرفت کا طریق کاربتلایا ہے ۔ خصوصا اس عرصے کے لئے جس میں باران رحمت کا نزول ہو رہا تھا ۔ غیب سے خبریں آرہی تھیں ۔ حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ لوگ شریعت کی تفصیلات نہ پوچھیں اور نصوص کو مجمل ہی رہنے دین ۔ نیز غیبی امور کو غیب ہی رہنے دیا جائے ۔ اور وہ غیبی امور میں اسی حد تک علم کی تمنا کریں جس قدر اللہ علیم وخبیر دے دے ۔ ان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ نئی نئی نصوص طلب کرکے اپنے اوپر مزید مشکلات ڈالتے چلے جائیں ۔ محض احتمالات اور فرضی مسائل نہ پوچھیں اور وہ ان غیبی امور کے پیچھے ہی نہ پڑیں جن کا انکشاف اللہ نے نہیں کیا ہے اس لئے کہ اللہ کو انسان کی طاقت اور قدرت کا اچھی طرح علم ہے ۔ وہ ان کی حد برداشت کو جانتا ہے ۔ وہ ان کی طاقت کے مطابق ان کے قانون بنا رہا ہے ۔ اور ان پر ان ہی امور کو منکشف کرتا ہے جس کا ادراک ان کا مزاج کرسکتا ہے ۔ بعض امور کو اللہ ارادۃ مجمل چھوڑتا ہے ۔ لوگوں کے لئے ان میں کوئی نقصان نہیں ہے کہ وہ امور اسی طرح مجمل رہیں ۔ نزول قرآن کے وقت ایسا جواب آسکتا ہے جو انہیں پسند نہ ہو یا بعض لوگ اسے پسند نہ کریں اور وہ سب پر بوجھ بن جائے ۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس بات سے منع کردیا کہ وہ ایسے امور کے بارے میں نہ پوچھیں کہ اگر بتا دیئے جائیں تو انہیں ناگوار ہوں اور انہیں متنبہ کردیا گیا کہ اگر وہ پوچھیں گے تو جواب آئے گا ۔ اس لئے کہ وحی جاری ہے ۔ اس طرح فرائض کا دائرہ وسیع ہوجائے گا ۔
(آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَسْأَلُواْ عَنْ أَشْیَاء إِن تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَإِن تَسْأَلُواْ عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّہُ عَنْہَا ۔
” ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ‘ لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ ان چیزوں کو اللہ نے معاف کردیا ۔ “ ۔
یعنی ان امور کے بارے میں نہ پوچھو جو اللہ نے معاف کردیئے اور اس کا فرض کرنا موقوف رکھا ۔ اس لئے کہ اجمال ہی میں وسعت ہوتی ہے ۔ مثلا حج کی تعداد کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بات نہیں کہ یا ایسی چیزیں جن کا اللہ نے ذکر ہی نہیں کیا ۔
اس کے بعد اللہ نے ان کے سامنے امم سابقہ یعنی اہل کتاب کی مثال پیش کی کہ انہوں نے بار بار سوالات کرکے اپنی آزادی کا دائرہ تنگ کیا اور اس طرح ان پر زیادہ فرائض اور احکام عائد ہوتے چلے گئے اور جب ان پر احکام فرض ہوئے تو انہوں نے ان کی تعمیل سے انکار کردیا اور کفر کا راستہ اختیار کیا ۔ اگر وہ خاموش رہتے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پر آسانی کی تھی اسے جاری رہنے دیتے تو ان پر سختی نہ ہوتی اور نہ شدت کے نتیجے میں انہیں انکار کرنا پڑتا ۔
سورة بقرہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ گائے ذبح کریں اور گائے کے ساتھ تو کوئی قیود وشروط عائد نہ تھے بلکہ صرف یہی کہا گیا تھا کہ بس وہ گائے ذبح کردیں ۔ اگر وہ کوئی گائے ذبح کرتے تو حکم کی تعمیل ہوجاتی ۔ انہوں نے گائے کے اوصاف گنانے شروع کردیئے ۔ انہوں نے اس کے رنگ تک تحقیقات شروع کردیں ۔ ہر تحقیق وسوال کے نتیجے میں ان پر سختی ہوتی گئی ۔ اگر وہ سوالات کی بوچھاڑ نہ کرتے تو ان کے لئے کوئی مشکل پیدا نہ ہوتی ۔
یہی حال تھا ان کا سبت کے بارے میں کہ پہلے انہوں نے خود ایک تعطیل کا مطالبہ کیا اور پھر اس کی پابندی کرنے سے انکار کردیا ۔ ان کی اس خصلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر بطور سزا کئی اشیاء کو حرام کردیا ۔
صحیح بخاری میں رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے ” میں نے جو احکام نہیں دیئے ان کے بارے میں مجھے چھوڑ دو ۔ اس سے پہلے جو قومیں ہلاک ہوئیں وہ زیادہ پوچھنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں اور مزید اس لئے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کے ساتھ اختلاف کئے ۔
صحیح مسلم میں عامر ابن سعید نے اپنے باپ سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں میں سے خود مسلمانوں کے خلاف سب سے بڑا جرم کرنے والا وہ شخص ہے کہ جو کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھے جسے مسلمانوں پر حرام نہیں کیا گیا اور اب اس کے سوالات کی وجہ سے وہ مسلمانوں پر حرام ہوجائے ۔
یہ آیات اور ان کے بعد احادیث نبوی کا یہ مجموعہ اسلامی معاشرے میں حصول علم کے لئے ایک منہاج وضع کردیتا ہے ۔ اسلام میں طلب علم کا مقصد واقعی ضروریات کے لئے مسائل کا حل معلوم کرنا ہے اور ضرورت کے دائرے تک کرنا ہے ۔ اس لئے عالم غیب میں دلچسپی نہ رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ انسانی طاقتیں ایسے کام کو روشنی میں لانے کے اندر خرچ نہ کی جائیں جن کی حقیقت تک پہنچنے کی انسان کو کوئی عملی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کی عملی زندگی اس حقیقت کی محتاج نہیں ہے اور انسانی ذہن کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ عالم غیب پر اسی طرح ایمان لائے جس طرح اللہ علیم وخبیر نے کہہ دیا ہے ۔
جب کوئی ایمان کو چھوڑ کر غیبی حقائق پر بحث شروع کر دے تو اس بحث کے نتیجے میں کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لئے کہ انسانی ذہن کو یہ قوت اور صلاحیت ہی نہیں دی گئی کہ وہ عالم غیب کے میدان میں کسی چیز کا ادراک کرسکے ۔ اس کا ادراک اسی حد تک محدود ہے جس حد تک اسے بتایا گیا ہے لہذا اس قسم کی کوئی کوشش بھی بےسود رہے گی ۔ یہ اور بات ہے کہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار کر ایسا شخص اپنے آپ کو تھکا ڈالے گا اور آپ ہی ضلال بعید میں جا پڑے گا ۔
اسلام کی پالیسی یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ در پیش ہو تو اس وقت اس کے بارے میں سوال کیا جائے ‘ اور یہی ہے اسلامی منہاج ۔ آپ دیکھتے نہیں کہ پورے مکی دور میں کوئی ایسا شرعی حکم نازل نہیں ہوا جس کا نفاذ ضروری ہو ۔ اگرچہ بعض اشیاء اور بعض انفرادی اعمال کے بارے میں احکام آتے رہے ‘ لیکن ایسے احکام جن کے نفاذ کی ضرورت ہو مثلا حدود ‘ تعزیرات ‘ کفارات اور قصاص یہ سب کے سب مدینہ میں نازل ہوئے کیونکہ مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی اور نفاذ احکام حکومت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
ابتدائی اسلامی سوسائٹی نے اس حقیقت کو پالیا تھا ۔ وہ کسی مسئلے کے بارے میں اس وقت تک نہ پوچھتے تھے جب تک وہ واقع نہ ہوجائے اور یہ سوال بھی واقعہ کی حد تک ہوتا ‘ مفصل قانون دفعات کے وضع کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آتی تاکہ سوال و جواب بھی اسلام کے نظام تربیت کے مطابق ہوں ۔
حضرت عمر ؓ کا طریقہ یہ تھا کہ اگر کوئی قضیہ درپیش نہ ہوتا تو خواہ مخواہ سوال کرنے والے پر وہ لعنت بھیجتے ۔ دارمی نے اپنی مسند میں اور زہری نے اس کا ذکر کیا ہے کہ زید ابن ثابت انصاری سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ پہلے پوچھتے کہ کیا ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے ۔ اگر وہ کہتے کہ ہاں ایسا وقوعہ ہوگیا ہے تو وہ پھر اپنے علم کے مطابق بات کرتے ۔ اور اگر وہ کہتے کہ واقعہ نہیں ہوا ہے تو وہ جواب دیتے کہ ایسا ہونے دو پھر بات کریں گے ۔
اسی طرح عمار ابن یاسر سے بھی روایت ہے کہ ان سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کیا اس سلسلے کا کوئی واقعہ ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں تو انہوں نے کہا کہ دیکھو جب ایسا کوئی واقعہ ہو تو پھر بات کریں گے ۔
درامی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ رسول سے اچھے لوگ نہیں دیکھے ۔ انہوں نے حضور ﷺ سے آپ کی وفات تک صرف 31 مسئلے پوچھے ۔ اور یہ سب مسئلے قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں جن میں یہ یسئلون شامل ہیں ۔
(آیت) ” یسئلونک عن الشھر الحرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یسئلونک عن المحیض) اور وہ اسی بات کے بارے میں پوچھتے تھے جو ان کے لئے نفع بخش ہوتی ۔
امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ جب میں مدینہ میں آیا تو اہل مدینہ کے پاس کتاب وسنت کے سوا کوئی علم نہ تھا ۔ جب کوئی معاملہ پیش آتا تو امیر مدینہ موجود علماء کو جمع کرتے اور جس بات پر ان کا اتفاق ہوجاتا وہ اسے نافذ کردیتے ۔ تم لوگ بہت ہی سوالات کرتے ہو اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا ۔
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں کہا ہے : امام مسلم نے حضرت مغیرہ ابن شعبہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی حرام کردی ہے بیٹیوں کا دفن کرنا حرام کردیا ہے دوسروں کے حقوق منع کرنے اور اپنے حقوق طلب کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور تین چیزوں کا ناپسند کیا ہے ۔ زیادہ قیل وقال منع ہے ‘ زیادہ سوالات کرنا منع ہے اور دولت کو ضائع کرنا ناپسند ہے ۔ اکثر علماء کا کہنا یہ ہے کہ کثرت سوال سے مراد فقہی مسائل میں زیادہ سوالات کرنا ہے ۔ یعنی ان معاملات میں جن میں کوئی نص نہیں ہے ۔ یعنی فقہی پہیلیاں اور مسائل سے جزئیات اور مشتقات نکالنا ۔ سلف صالحین اس کو ناپسند کرتے تھے اور اسے محض تکلف سمجھتے تھے ۔ وہ کہتے تھے پہلوؤں پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے ۔
اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کے بارے میں سوال کرنا تو ایک متعین صورت حالات کے بارے میں سوال ہوگا ‘ لیکن اگر کوئی واقعہ پیش آیا ہی نہ تو اس کا تعین ممکن ہی نہیں ہوتا اور اس کے بارے میں جو بھی فتوی دیا جائے گا وہ عملا اچھی طرح منطبق نہ ہوگا ۔ اگر ہم فرض حالات کے جوابات دینے لگیں تو یہ فعل شریعت کی حقیقت پسندی کے خلاف ہوگا ۔ اور اسلام کے منہاج کے متصادم ہوگا ۔
آج کے دور میں اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ لوگ ایسے ممالک میں شریعت کے قوانین کے بارے میں سوالات کرتے ہیں جہاں شریعت کے قیام کا مقصد پیش نظر ہوتا ہے ۔ نہ فتوی اس لئے طلب کیا جاتا ہے ۔ کہ شریعت کے کسی حکم کو نافذ کرنا ہے ۔
اسلامی شریعت کا طریق کار یہ ہے کہ اس میں فتوی نفاذ قانون کے لئے طلب کیا جاتا ہے ۔ اگر پوچھنے والے اور جواب دینے والے دونوں جانتے ہیں کہ وہ ایسے ملک کے باشندے ہیں جس میں شریعت کا نفاذ نہیں ہورہا ہے ۔ اس میں اللہ کے اقتدار اعلی کو نہ تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ اس پر کوئی یقین رکھتا ہے نہ اسے لوگوں کی زندگیوں اور اجتماعی امور میں نافذ کیا جاتا ہے بالفاظ دیگر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اور اللہ اعلی کی اطاعت نہیں کی جاتی تو ایسے حالات میں فتوی طلب کرنے کے کیا معنی ؟ اور جواب دینے والے کے جواب کا کیا فائدہ ؟ یہ دونوں دراصل شریعت کے ساتھ مذاق کرتے ہیں چاہے انہیں اس کا شعور ہو یا لاشعوری طور پر وہ ایسا کر رہے ہوں ۔
اسی طرح اسلامی فقہ کی جزئیات کی خیالی تعلیم اور تحقیق خصوصا ان شعبوں میں جن کا انطباق اور نفاذ نہیں ہوتا ایک ایسا مطالعہ اور تحقیق ہے جو محض کھیل کے طور پر کیا جاتا ہے اور اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسلامی فقہ اور اسلامی شریعت کا اس کرہ ارض پر ایک مقام ہے اور وہ مقام صرف یہ ہے کہ اسے مدارس کے اندر پڑھایا جائے ‘ عدالتوں کے اندر ان فقہی جزئیات کا نفاذ ضروری نہیں ہے ۔ یہ تاثر جو شخص دیتا ہے وہ اپنے آپ کو ایک بڑے گناہ میں ملوث کرتا ہے ‘ اس لئے کہ یہ شخص لوگوں کو یہ شعور دے کر ان کے جذبہ نفاذ شریعت کو سرد کرتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دین سنجیدہ دین ہے اور یہ آیا ہی اس لئے ہے کہ لوگوں کی زندگی پر کنٹرول کرے ۔ یہ اس لئے آیا ہے کہ لوگ صرف اللہ کی بندگی اور غلامی کریں ۔ اس دین کے آنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے اقتدار اعلی اور حاکمیت کے حق کو چھین لیا ہے ان سے یہ حق واپس لیا جائے اور اسے دوبارہ اللہ کے حوالے کیا جائے اور تمام امور میں اللہ کی شریعت اور حکومت جاری ہو ۔ اللہ کے سوا کسی اور کی شریعت نافذ نہ ہو ‘ اس لئے کہ یہ شریعت آئی ہی اس لئے ہے کہ وہ زندگی پر حکمرانی کرے اور زندگی کے واقعی اور عملی مسئلوں کے حل پیش کرے اور ہر معاملے کی شکل و صورت اور اس کے حجم کے مطابق صحیح صحیح فیصلے دے ۔ حالات اور واقعات کے مطابق ۔
یہ دین اس لئے نہیں آیا کہ اسے بطور علامت اور شعار لیا جائے ۔ اس لئے نہیں آیا کہ اس کے شرعی نظام پر محض عملی مباحث ہوں ‘ اس لئے نہیں کہ اس کا نفاذ کیسے ہو ۔ یہ نظام خیالی مفروضات کے حل پیش کرتا ہے اور فرض واقعات کے فرضی احکام وضع کرتا ہے ۔
یہ ہے اسلام کی حقیقت پسندی ۔ علمائے دین کو چاہئے کہ وہ اس دین کا مطالعہ حقیقت پسندانہ انداز میں کریں اور اس مطالعے کے ساتھ ساتھ نفاذ شریعت کے امکانات کا مطالعہ بھی کریں ۔ اگر وہ نفاذ شریعت کی جدوجہد نہیں کرسکتے تو ہوا میں محض خیالی فتوے کیوں جاری کرتے ہیں ؟
ابن عباس ؓ سے جو روایت کی ہے اور اس آیت کے شان نزول کے بارے میں سعید ابن جبیر نے کہا ہے کہ آیت (یایھا الذین امنوا لا تسئلوا عن اشیآئ) سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ جاہلیت میں مروج بعض باتوں کے بارے میں پوچھتے تھے ۔ البتہ معین طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ سوال کیا تھا لیکن اس آیت کے بعد بحیرہ ، سائبہ وصیلہ اور حام کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں اور آیت سابقہ کے درمیان کوئی تعلق ضرور ہوگا ۔