Anda sedang membaca tafsir untuk kumpulan ayat dari 4:56 hingga 4:57
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(آیت) ” نمبر 56 تا 57۔

(آیت) ” نضجت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا “۔ (4 : 56) ” اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے ‘۔

یہ ایک ایسا منظر ہے جو مسلسل چلتا ہے ۔ ایک ایسا منظر جو نظروں کے سامنے ہے اور بار بار دہرایا جارہا ہے نظریں اس کے اوپر جم جاتی ہیں ۔ خیال ایک جگہ مرکوز ہوجاتا ہے ۔ اور اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتا ۔ یہ یقینا ایک خوفناک منظر ہے ‘ اس کی خوفناکی فکر ونظر کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ۔ اس مسلسل اور خوفناک منظر کو صرف ایک لفظ اسکرین پر لاتا ہے یہ لفظ (کلما) ہے ۔ اور یہ منظر صرف فقرے کے ایک حصے کے ذریعہ خوفناک اور ہولناک بن جاتا ہے ۔ (کلما نضجت جلودھم ) اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی ۔ “ اس کے بعد جملے کے دوسرے حصے میں اس عمل کو خارق عادت عمل اور تعجب انگیز کردیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” بدلنھم جلودا غیرھا “۔ ” تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے ۔ “ اور یہ تمام ہولناک مناظر اور خوفناک عمل اور عجیب اور معجزانہ منظر صرف ایک جملہ شرطیہ کے اندر تمام ہوتا ہے صرف ایک جملہ میں ۔

یہ کفار کے لئے مناسب اور منصفانہ جزاء ہے ” تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں ۔ “ (آیت) ” لیذوقوا العذاب “۔ اللہ تعالیٰ ہر سزا دینے پر قادر ہے اور سزا سنانے میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ کان عزیزا حکیما “۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے ۔

کفار کے لئے اس بھڑکتی ہوئی خوفناک جہنم کے مقابلے میں مومنوں کا انعام کیا ہے ۔ ان جلتی ہوئی کھالوں ‘ بھونی جانے والی کھالوں کے مقابلے میں کہ جب وہ گل جائیں تو بدل جائیں اور از سر نو جلنے لگیں اور از سر نو تعذیب شروع ہو ۔ اس خوفناک منظر اور اس کربناک مشاہدے کے مقابلے میں مومنوں کا انعام واکرام کیا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں۔

(آیت) ” والذین امنوا وعملوا الصلحت “۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کئے “ وہ تروتازہ باغات میں ہوں گے ۔ (آیت) ” جنت تجری من تحتھا الانھر “ ۔ ’‘’ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ “ اور یہ منظر نہایت پرسکون ‘ دائمی اور اطمینان بخش ہوگا ۔ (آیت) ” خلدین فیھا ابدا “۔ ” جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “ ۔۔۔۔۔ ان باغات مین ان کو پاکیزہ بیویاں میسر ہوں گی ۔ (آیت) ” ازواج مطھرۃ “۔ اور ان باغات میں گھنی چھاؤں نظر آتی ہے نہایت ہی خوشگوار (آیت) ” وندخلھم ظلا ظلیلا “۔ ” اور ہم انہیں گھنی چھاؤں میں رکھیں گے ۔ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پہلے تھا جزاء کا منظر ‘ ایک یہ جزاء کا منظر ہے ۔ اور یہ منظر مشاہدات میں بھی ‘ تصاویر میں بھی اور اثرات میں بھی پہلے منظر کا عین مقابل ہے ۔ مناظر قیامت کے بیان میں قرآن کا یہی انداز ہوتا ہے کہ اس میں گہرے اشارے ہوتے ہیں اور موثر اور گہرے اثرات ہوتے ہیں ‘ جو ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔

درس 35 ایک نظر میں :

یہ سبق نہایت ہی اہم موضوع پر مشتمل ہے اور یہ موضوع امت مسلمہ کی زندگی کا اساسی موضوع ہے ۔ اس میں ایمان کی شرائط اور ایمان کی تعریف بیان کی گئی ہے وہ ایمان جو اس امت کے نظام اساسی کی صورت میں ظاہر ہو ‘ اس موضوع کی اہمیت ایک تو اس کے نفس مضمون کی وجہ سے ہے اور دوسرے نظام اساسی کے ساتھ اپنے طریقہ ارتباط اور امتزاج کی وجہ سے بھی یہ اہم ہے ۔

قرآن کریم نے اس امت کو وجود بخشا اور اس کی تربیت کی ۔ اس امت کو پوشیدگی سے نکالا گیا ‘ یا عدم سے وجود کی طرف نکالا گیا اور قرآن کریم نے اس کے لئے نہایت ہی جامع انداز تعبیر استعمال کیا ۔ (آیت) ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “۔ (3 : 11) ” تم خیر امت تھے اور تمہیں لوگوں کے لئے نکالا گیا ۔ “

غرض قرآن نے اس مت کو وجود بخشا ‘ اس لئے کہ وہ قرآن سے پہلے موجود نہ تھی ۔ پھر اس نے اس کی تربیت کی تاکہ وہ تاریخ انسانیت میں بےمثال امت بن جائے ۔ اور خیر امت ہو اور (آیت) ” اخرجت اللناس “۔ ” اسے لوگوں کیلئے نکالا گیا ۔ “ بات آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کی ذرا وضاحت کردیں کہ قرآن نے اس امت کو کس طرح پیدا کیا اور کیسے تربیت دی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس امت کا پیدا کیا جانا اور پھر اس کو تربیت دیا جانا ‘ اس کیلئے ایک نیاجنم تھا۔ بلکہ یہ پوری انسانیت کے لئے ایک نیا جنم تھا ۔ اس امت کے آنے کے بعد ‘ انسانیت بالکل ایک نئی شکل میں سامنے آئی ۔ یہ امت ترقی کی راہ میں ایک مرحلہ نہ تھی ‘ نہ ارتقاء کی منازل میں سے ایک منزل تھی ۔ نہ یہ ترقیاتی عمل میں ایک لانگ جمپ تھی بلکہ یہ امت دراصل امت عربیہ اور پھر پوری انسانیت کے لئے ایک نیا جنم تھی ۔

جب ہم جاہلیت کے دور کے اشعار پر نظر ڈالتے ہیں اور جاہلیت کے دور کے اکا دکا آثار کا مطالعہ کرتے ہیں جو درحقیقت عربوں کا دیوان ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں عربوں کا نظریہ حیات ‘ ان کا نظریہ کائنات ‘ انکا نظریہ اخلاق اور سماجی طرز عمل ریکارڈ ہوا ہے ۔ اور یہ ان کے دائمی اور بنیادی تصورات ہیں۔ ان اشعار میں انکی زندگی کے نشانات ‘ ان کے قومی جذبات اور انکے تصورات کا کل اثاثہ موجود ہے ۔ ان کی تہذیب و تمدن کا خلاصہ بھی ان کے اندر ریکارڈ شدہ ہے ۔ غرض عربوں کی مکمل شخصیت ان جاہلی اشعار اور دوسرے اکا دکا آثار میں موجود ہے ۔

ہم عربوں کے اس دیوان میں ان کے تصورات اور انکے علم و ثقافت کا مجموعہ دیکھتے ہیں اور ان کے اس دیوان میں موجود انکی اقدار کا جائزہ قرآن کریم کی روشنی میں لیتے ہیں ‘ پھر ہم ‘ وجود ‘ زندگی ‘ کائنات اور انسان کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو دیکھتے ہیں اور ان کے نظام معاشرت اور وجود انسانی کے مقاصد کے بارے میں ان کے تصورات ‘ اور ان تصورات کی اساس پر ان کی عملی تنظیم کو دیکھتے ہیں ‘ پھر ہم عربوں کی عملی صورت حال کا جائزہ قبل از اسلام اور بعد از اسلام لیتے ہیں اور یہ تقابلی جائزہ ان تصورات کی روشنی میں لیتے ہیں جو ان کے اس دیوان کے اندر پائے جاتے ہیں اور پھر اس کا تقابل ان حالات سے کرتے ہیں جو قرآنی تصورات کے تحت عربی معاشرے میں پیدا ہوئے تو ہمیں نہایت ہی قطعیت کے ساتھ معلوم ہوجاتا ہے ۔ کہ قرآنی تصورات کے تحت یہ جدید معاشرہ عربوں کیلئے ایک جدید جنم تھا ۔ یہ ترقی نہ تھی ‘ نہ ترقی کا کوئی مرحلہ تھا ‘ نہ یہ کوئی برق رفتار ترقی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی صنعت کاری سے اس قوم کا ظہور ہوا ‘ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے جنم دیا گیا ۔ قرآن کریم نے اس کے لئے (آیت) ” (اخرجت) کا لفظ بالکل صحیح استعمال کیا ہے ۔ اور یہ نشاۃ جدیدہ نہایت ہی حیران کن اور تعجب انگیز تھی اس لئے کہ یہ اس قوم کا پہلا اور آخری ظہور تھا ۔ اور دنیا میں یہ واحد مثال ہے کہ ایک کتاب کے دونوں وقایوں کے درمیان سے ایک قوم جنم لیتی ہے ۔ ایک امت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور ایک کتاب کے الفاظ سے اسے زندگی ملتی ہے لیکن یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ کلمات اللہ کے احکامات ہیں۔

اس نکتے پر اگر کوئی ہم سے بحث و مباحثہ کرتا ہے تو بتائے کہ تاریخ کے جس موڑ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے اس امت کو برپا کیا ‘ اس سے پہلے یہ امت کہاں تھی ۔ جب قرآن کریم نے اسے پیدا کیا اور یہ نکالی گئی تو یہ کہاں تھی ؟

ہم جانتے ہیں کہ یہ جزیرۃ العرب میں تھی لیکن کیا اس کا کوئی انسانی وجود تھا ؟ انسانی تمدن کے رجسٹر میں اس کا کیا ریکارڈ تھا ۔ عالمی تاریخ میں اس کے بارے میں کتنے اوراق موجود تھے ۔ انسانیت کے عالمی دسترخوان پر اس کا مقام کہاں تھا ۔ اور اس دسترخوان پر اس کی جانب سے کیا تحفہ تھا تاکہ تاریخ یاد کرتی اور یہ ان کی پہچان ہوتی کہ یہ ہے عربوں کا تحفہ ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس امت کی نشوونما صرف اس دین کے ذریعے ہوئی اور اس کی تربیت اسلامی نظام زندگی کے زیر سایہ ہوئی ۔ اس نے اپنے نفس اور اپنی ذات کی قیادت اور پھر پوری انسانیت کی قیادت اس کتاب کے ذریعے سے کی جو اس کے ہاتھ میں تھی اور اس کتاب کے نظام حیات کے مطابق اس کی زندگی پر چھاپ پڑی ۔ صرف قرآن اور صرف قرآن سے وہ وجود میں آئی ۔ اس پر تاریخ گواہ ہے ۔ اور اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ۔ (آیت) ” ولقد انزلنا الیکم کتابا فیہ ذکرکم ۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون “۔ (بےشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔ )

غرض اس کرہ ارض پر امت عربیہ کا تذکرہ صرف اس کتاب کی وجہ سے ہوا اور تاریخ میں اس کا اہم کردار رہا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنا ایک انسانی وجود قائم کیا ‘ اس کے بعد اس نے ایک عالمی تمدن وتہذیب کو وجود بخشا ۔ لیکن بعض احمق اب یہ چاہتے ہیں کہ وہ امت عربیہ پر اللہ کے اس احسان کا انکار کردیں اور اس بات کی ناشکری کی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے انسانوں کے لئے اپنا آخری کلام عربی زبان میں نازل فرمایا اور عربوں کو اس کے اولین مخاطب قرار دیا ۔ اس کلام کی وجہ سے ان کو ایک انسانی وجود بخشا ‘ ان کو شہرت اور تاریخ اور تمدن عطا کئے ۔ یہ احمق دراصل اس خلعت کا اتارنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے امت عربیہ کو پہنائی اور وہ اس جھنڈے کو پھاڑنا چاہتے ہیں ‘ جس کی وجہ سے ان کو عزت اور شہرت نصیب ہوئی بلکہ ان کو ایک وجود ملا ‘ جب اللہ نے ان کو بحیثیت امت اٹھایا۔

ہم کہتے ہیں کہ جب اسلام اس امت کی تخلیق کررہا تھا اور اس کی تربیت کر رہا تھا ‘ جماعت مسلمہ کے اندر اسلام کے جدید خدوخال کے خطوط کھینچ کر ان کو مستحکم کر رہا تھا ‘ اسے جاہلیت کی گہری کھائی سے نکال کر اس کے وجود سے جاہلیت کے تمام خدوخال مٹا رہا تھا ‘ اس کی زندگی ‘ ان کے نفوس اور اس کے معاشرے کو پاک کر رہا تھا ‘ اس کو منظم کر رہا تھا ’ اسے از سر نو کھڑا کر کے اسے جدید جنم دے رہا تھا اس جدید جماعت کو ایک معرکہ کار زار میں اتار رہا تھا اور وہ اپنے نفوس ‘ اپنے اوضاع واطوار سے سابقہ معاشرتی آثار جاہلیت مٹا رہا تھا ۔ اور جس وقت قرآن جماعت کے اندر سے اور اس کے ماحول سے مدینہ منورہ کے اندر منافقین ‘ مشرکین اور یہودیوں کی شکل میں پائے جانے والی جاہلیت کو ختم کر رہا تھا جاہلیت کے ساتھ یہ معرکے رات دن جاری تھے ‘ ہر زمان ومکان میں جاری تھے ۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے اس دوران میں قرآن نے سب سے پہلے اس امت کو ایک صحیح تصور حیات دیا ۔ اس کے لئے ایمان کی شرائط وحدود وضع کیں ‘ پھر اس تصور کے مطابق اسلام نے اس کے لئے ایک دستوری نظام تجویز کیا جس کی وجہ سے اس کے وجود اور اس کے اردگرد جاہلیت کے وجود کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیا گیا ان کے لئے وہ خصائص ومقاصد متعین کئے گئے جن کے لئے اسے برپا کیا گیا تھا تاکہ وہ لوگوں کے سامنے ان کی تبلیغ کرے اور ان کو اللہ اور اللہ کے ربانی نظام کی طرف دعوت دے ۔

اس درس میں اس اساسی نظام کا بیان ہے ۔ یہ نظام اس اساسی تصور حیات سے پھوٹتا ہے اور اس پر قائم ہے ۔ اور انہی شرائط ایمان اور حدود اسلام کے مطابق ہے ۔

پھر اس سبق میں وہ تجدید عہد ہے جس سے یہ امت اپنا نظام حیات لیتی ہے ۔ وہ طریقہ بھی بتایا گیا ہے جس کے مطابق وہ اپنا نظام اخذ کرے گی ۔ وہ نظام بھی بتایا گیا ہے جس کے مطابق وہ اس چیز کا ادراک کرے گی جسے وہ اخذ کررہی ہے یا زندگی کے مسائل اور اس کی مشکلات میں اس نظام کی طرف رجوع کرے گی ‘ ان امور میں جن کے بارے میں کوئی نص اور صریح حکم نہیں ہے اور جن میں رائے کا اختلاف ممکن ہے ۔ پھر یہ بھی بتایا گیا کہ وہ انتظامیہ کون سی ہے جس کی اطاعت ہوگی اور اس انتظامیہ کی قوت کا مرجع کونسی چیز ہے اور یہ تمام امور ایمان کی شرائط اور تعریفات ہیں۔

یہاں آکر اس امت کا دستوری نظام اس کے نظریہ حیات کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ یہ اتحاد پھر تحلیل نہیں ہوتا اور نہ ان کے عناصر ترکیبی ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ۔

یہ ہے وہ اہم موضوع جس کا حق یہ سبق ادا کرتا ہے اس بارے میں مکمل ہدایات دی جاتی ہیں اور اس سے متعلق تمام سوالوں کا جواب دیا جاتا ہے ۔ اس سبق کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ اس قدر واضح اور بدیہی ہے کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس بارے میں کوئی مسلمان کس طرح مجادلہ کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ درس امت کو واضح طور پر بتاتا ہے کہ رسولوں کو بھیجا ہی اس لئے گیا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور یہ اطاعت اللہ کے حکم سے ہے اور یہ کہ رسولوں کو محض تبلیغ یا لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا کہ وہ لوگوں کو مسکت دلائل سنا دیں بلکہ (آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ “۔ (اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے وہ صرف اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے)

یہ سبق واضح کرتا ہے کہ لوگ مومن ہی نہ ہوں گے اگر وہ اپنے فیصلے اس نظام قانون کے مطابق نہیں کرتے جو اللہ نے اتارا ہے ۔ یہ منہاج رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی اور آپ کے احکام میں پایا جاتا ہے اور جو قرآن وسنت کی شکل میں قیامت تک باقی ہے ۔ اور یہ بات بھی کافی نہیں ہے کہ وہ اس قانون کے مطابق اپنے فیصلے کرائیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دلی رضا مندی سے ان فیصلوں کو قبول بھی کریں ۔

(آیت) ” (فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مماقضیت ویسلموا تسلیما “ (4 : 65)

” نہیں اے محمد ﷺ تمہارے رب کی قسم ‘ یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ‘ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دل میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں ‘ بلکہ سر تسلیم خم کرلیں)

اس سبق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو لوگ طاغوت کے پاس اپنے فیصلے لے جاتے ہیں یعنی اللہ کی شریعت کے سوا کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کراتے ہیں تو ان سے ان کا یہ دعوی قبول نہ ہوگا کہ وہ اللہ کے کلام اور رسول اللہ ﷺ کے احکام پر ایمان لانے والے ہیں ‘ یا وہ پہلی کتابوں پر ایمان لانے والے ہیں ۔ ان کا یہ دعوی جھوٹا ہے اور اس پر دلیل ان کا یہ فعل ہے کہ وہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جاتے ہیں ۔

(آیت) ” الم ترالی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یرویدن ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ ویرید الشیطن ان یظلھم ضللا بعیدا “۔ (4 : 60)

” اے نبی تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ‘ اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ‘ مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لئے طاغوت کی طرف رجوع کریں ۔ حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ شیطان تمہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے)

اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نفاق کی علامت یہ ہے کہ لوگوں کو اس قانون کے مطابق فیصلے کرنے روکا جائے جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور جو سنت رسول ﷺ میں ہے ۔

(آیت) ” واذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہ ولی الرسول رایت المنفقین یصدون عنک صدودا “۔ (4 : 61) (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں)

یہ سبق کہتا ہے کہ ایمانی طریق کار اور اس کا دستور اساسی یہ ہے کہ تم لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کی پیروی کرو اور رسول خدا ﷺ کی سنت کی پیروی کرو اور ان اہل ایمان کی اطاعت کرو جو اولو الامر ہیں۔

(آیت) ” یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ اطیعوا الرسول واولی الامر منکم “۔ (4 : 59)

(اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول ﷺ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں)

یہ سب بتاتا ہے کہ جہاں نقطہ نظر مختلف ہو ‘ اور مسائل بالکل نئے ہوں اور ان میں منصوص احکام موجود نہ ہوں تو پھر اللہ و رسول کی طرف رجوع کرو اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا حل تلاش کرو ۔ (آیت) ” (فان تنازعتم فی شیء فردہ الی اللہ والرسول) (4 : 59) ” اگر تم کسی چیز میں متنازع ہوجاؤ تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ۔ “ اس طریقے سے اسلامی نظام حیات ان مسائل اور حالات کا حل دریافت کرلیتا ہے جو بالکل پہلی مرتبہ نمودار ہوئے ہوں ۔۔۔ اس قاعدے کے ذریعے اسلام ابدی طور پر نئے نئے مسائل کے حل کی تدبیر کرتا ہے ۔ چونکہ اسلام کا دستوری قاعدہ یہ ہے کہ اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسائل اسلامی نظام کے مطابق حل نہ کرین اس لئے اسلامی نظام زندگی کی وسعت کے ساتھ ان کے حل کا یہ طریقہ وضع کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ مسائل کو اللہ اور رسول اللہ کی طرف لوٹایا جائے ‘ کیونکہ یہاں اطاعت شرط ایمان ہے ۔ ایمان واضح طور پر مشروط ہے ۔ (آیت) ” (ان کنتم مومنون باللہ والیوم الاخر (4 : 59) ” اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ “

ہمیں اس سے قبل بیان کردہ یہ فرمان الہی نہیں بھولنا چاہئے ۔ (آیت) ” (ان اللہ لا یفغر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشآء (4 : 48) اللہ اس بات کو تو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا جائے اور اس کے سوا جس گناہ کو چاہے بخش دے ۔ “ یہودیوں کو مشرک قرار دیا گیا ‘ محض اس لئے کہ وہ اپنے احبار کو اللہ کے علاوہ رب قرار دیتے تھے ‘ اس لئے نہیں کہ وہ اپنے ارباب کی عبادت اور بندگی کرتے تھے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے ارباب کو حلال و حرام قرار دینے کے اختیارات دے رکھے تھے ۔ انہوں نے احبار کو حق حاکمیت اور حق قانون سازی دونوں عطا کردیئے اور یہ کام انہوں نے اپنی جانب سے کیا تھا ۔ اس لئے انہوں نے انکو اللہ کا شریک بنا لیا تھا جو ناقابل معافی جرم ہے اور اس کے علاوہ تمام جرائم معاف ہو سکتے ہیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں ۔ (وان زنا وان سرق وان شرب الخمر) (اگرچہ اس نے زنا کیا اور چوری کی اور شراب نوشی کی) ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے عقیدے کی بات کو اس میں منحصر کردیا ہے کہ اللہ کے ساتھ حاکمیت میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس میں وہ منفرد ہے اس لئے کہ الوہیت کی صفات میں سے یہ مخصوص ترین صفت ہے ۔ اس کے اندر رہ کر ہی ایک مومن ‘ مومن اور مسلم ‘ مسلم رہ سکتا ہے اور وہ امید رکھ سکتا ہے کہ اس کے گناہ معاف ہوں ‘ چھوٹے ہوں یا بڑے ۔ اس سے باہر نکل جائیں تو شرک ہے ‘ جسے اللہ کبھی بھی معاف نہیں فرماتے ۔ اس لئے کہ یہ ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف (Definition) ہے ۔ (آیت) ” ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر (4 : 59) (اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہو۔ )

یہ ہے وہ اہم موضوع جو اس سبق میں زیر بحث ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کرہ ارض پر ایک مسلم امت کے فرائض کیا ہیں ۔ مثلا یہ کہ انہوں نے اللہ کے درست نظام زندگی کی مطابق عدل و انصاف قائم کرنا ہے ۔

(آیت) ” (ان اللہ یامرکم ان تودوا الامنت الی اہلھا واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ اللہ کان سمیعا بصیرا “۔ (4 : 58)

(مسلمانو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ۔

یہ ہے اس سبق کا اجمالی خاکہ ۔ اب ذرا نصوص پر تفصیلی بحث دیکھئے ۔