آیت 20 { وَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ ہٰذِہٖ } ”اے مسلمانو ! اللہ تم سے وعدہ کرتا ہے بہت سے اموالِ غنیمت کا جنہیں تم حاصل کرو گے ‘ پس یہ فتح تو اس نے تمہیں فوری طور پر عطاکر دی ہے“ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ‘ جس کا ذکر سورت کے آغاز میں بایں الفاظ ہوا : { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا } ”یقینا ہم نے آپ ﷺ کو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔“ { وَکَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ } ”اور اس نے روک لیا لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے۔“ ظاہر ہے اگر جنگ ہوتی اور قریش بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے تو کچھ نہ کچھ نقصان مسلمانوں کا بھی ضرور ہوتا۔ { وَلِتَـکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَیَہْدِیَکُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا } ”تاکہ یہ اہل ِایمان کے لیے ایک نشانی بن جائے اور وہ تمہاری راہنمائی فرمائے سیدھے راستے کی طرف۔“ تاکہ اس کے بعد اقامت دین کے لیے تمہاری اجتماعی جدوجہد کامیابی کے مراحل جلد از جلد طے کرے اور اللہ تعالیٰ اسے تیر کی طرح سیدھا اس کے آخری ہدف اور منزل مقصود تک پہنچا دے۔