آیت نمبر 36 تا 39
العشی کے معنی ہوتے ہیں نظر کا دیکھ نہ سکنا ، بالعموم یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب تیز روشنی سے آنکھیں دو چار ہوں ، جس میں آنکھوں کو کھولنا ممکن نہ ہو۔ نیز عشی کی وجہ سے شام کے اندھیرے میں کمزور نظر کے لوگ صحیح طرح معلوم نہیں کرسکتے۔ اور ایک خاص بیماری کی وجہ سے بھی یہ ہوتا ہے۔ یہاں مقصد غفلت اور اللہ کی یاد سے منہ موڑنا اور دل سے یہ شعور محو کردینا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔
ومن یعش عن ذکر الرحمٰن نقیض لہ شیطنا فھو لہ قرین (43 : 36) “ جو شخص رحمٰن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے ”۔ اللہ کی مشیت نے فطرت انسان میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جب اس کا دل ذکر الٰہی سے غافل ہوا اس کی طرف ایک شیطان راہ پالیتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ لگ جاتا ہے ، ہر وقت اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ اور اس کے لئے برائی کو خوبصورت بناتا رہتا ہے۔ یہ شرط اور اس کا جواب دونوں مل کر اللہ کے نظام مشیت کی خوبصورت تعبیر کرتے ہیں۔ اللہ کی سنت کے مطابق سبب آتے ہی نتیجہ سامنے آجاتا ہے۔ یہی فیصلہ پہلے سے اللہ کے علم کے مطابق طے ہوتا ہے اور اسے قضا اور قدر کہتے ہیں۔ اور شیطانی برے دوستوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے انسانی برے دوستوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ یوں یہ انسان خیال کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں۔
وانھم لیصدونھم عن السبیل ویحسبون انھم مھتدون (43 : 37) “ اور یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں اور وہ اپنی جگہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں ”۔ ایک دوست کی طرف سے ایک دوست کے ساتھ یہ نہایت ہی برا سلوک ہے کہ وہ دوست کو سیدھے راستے سے روک کر غلط راہ پر ڈال دے اور پھر اسے مسلسل غافل رکھے کہ وہ انسانی دوست کبھی یہ سوچ بھی نہ سکے کہ وہ غلطی پر ہے بلکہ اسے یہ تسلی دیتا رہے کہ وہ سیدھی راہ پر جارہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ برے انجام کے ساتھ متصادم ہوجاتا ہے۔
یہاں انداز تعبیر کے لئے فعل مضارع استعمال ہوا ہے ، مطلب یہ ہے کہ ہر عمل جاری ہے۔ لیصدونھم “ وہ روکتے ہیں ”۔ یحسبون “ وہ گمان کرتے ہیں ”۔ اور دیکھا جاسکتا ہے بلکہ دوسرے لوگ دیکھ رہے ہیں اس تماشہ کو ، جبکہ وہ خود اسے تمہیں دیکھ رہے جو جہنم کی طرف رواں ہیں لیکن انجام سے بیخبر اور جس راہ پر وہ جارہے ہیں ، اچانک ہی وہ انجام بد تک پہنچ جائیں گے۔
حتی اذا جاء ۔۔۔۔ فبئس القرین (43 : 38) “ آخر کار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا ، “ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا بعد ہوتا تو ، تو بدترین ساتھی نکلا ”۔
چشم زدن میں ہم دنیا سے آخرت میں چلے جاتے ہیں ، ہماری اس زندگی کا دفتر لپیٹ لیا جاتا ہے اور یہ اندھا پن اس کو شیطان کی رفاقت میں آخری انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ یہاں اب ہوش آجائے گا ، جس طرح شرابی کا نشہ اترتا ہے اور اندھے پن اور مدہوشی کے بعد یہ نظریں اٹھا کر دیکھیں گے۔ اب یہ شخص اپنے ساتھی کو غور سے دیکھے گا جو اسے یہ یقین دہائیاں کرا رہا تھا کہ میں تو آپ کو صحیح راہ پر لے جا رہا ہوں ، لیکن تھا وہ بربادی و ہلاکت کا راہبر۔ اس لیے وہ جل بھن کر اسے کہے گا۔
یلیت بینی وبینک بعد المشرقین ( 43 : 37) “ کاش میرے اور تیرے درمیان شرق و مغرب کا بعد ہوتا ”۔ کاش کہ ہم ملتے ہی نہ اور ہمارے درمیان یہ دوریاں ہوتیں اور پھر قرآن مجید کہتا ہے۔
فبئس القرین (43 : 38) “ یہ تو بہت ہی برا ساتھی ہے ”۔ اب دونوں کی حالت پر مایوس کردینے والا تبصرہ۔ اور پھر اس منظر پر پردہ کرتا ہے۔
ولن ینفعکم الیوم اذ ظلمتم انکم فی العذاب مشترکون (43 : 39) “ اور اس وقت ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ جب تم ظلم کرچکے تو آج یہ بات تمہارے لئے کچھ نافع نہیں ہے کہ تم اور تمہارے شیطان عذاب میں مشترک ہیں ” ۔ عذاب سب کے لئے برابر ہے اور اس کو باہم تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
٭٭٭٭
اب روئے سخن ان لوگوں سے بھر جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اس بری حالت میں چھوڑ کر کہ ایک دوسرے کو ملامت کریں ، الزامات کی بوچھاڑ کریں ، برا بھلا کہیں ، خطاب رسول اللہ ﷺ سے شروع ہوجاتا ہے کہ آپ ان لوگوں کے اس انجام بد سے پریشان نہ ہوں اور ان کے اعراض اور کفر کی پرواہ بھی نہ کریں جو حق آپ کی طرف آرہا ہے اس پر جم جائیں اور سچائی قدیم زمانے سے مسلسل آرہی ہے اور ہر رسول نے اسی کو پیش کیا ہے۔