Anda sedang membaca tafsir untuk kumpulan ayat dari 41:50 hingga 41:51
ولين اذقناه رحمة منا من بعد ضراء مسته ليقولن هاذا لي وما اظن الساعة قايمة ولين رجعت الى ربي ان لي عنده للحسنى فلننبين الذين كفروا بما عملوا ولنذيقنهم من عذاب غليظ ٥٠ واذا انعمنا على الانسان اعرض وناى بجانبه واذا مسه الشر فذو دعاء عريض ٥١
وَلَئِنْ أَذَقْنَـٰهُ رَحْمَةًۭ مِّنَّا مِنۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَـٰذَا لِى وَمَآ أَظُنُّ ٱلسَّاعَةَ قَآئِمَةًۭ وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّىٓ إِنَّ لِى عِندَهُۥ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِمَا عَمِلُوا۟ وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍۢ ٥٠ وَإِذَآ أَنْعَمْنَا عَلَى ٱلْإِنسَـٰنِ أَعْرَضَ وَنَـَٔا بِجَانِبِهِۦ وَإِذَا مَسَّهُ ٱلشَّرُّ فَذُو دُعَآءٍ عَرِيضٍۢ ٥١
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

وما اظن الساعۃ قائمۃ (41 : 50) “ میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی ”۔ اب یہ اپنے آپ میں مست ہے۔ اللہ پر احسان جتلاتا ہے۔ اور یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ کے ہاں بھی میرا یہی مقام ہوگا حالانکہ اس کا کوئی مقام نہ ہوگا۔ یہ تو آخرت کا منکر اور کافر ہے۔ اس کے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ اگر اللہ کے ہاں چلا گیا تو وہاں بھی باعزت لوگوں میں شمار ہوگا۔

ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی (41 : 50) “ لیکن اگر واقعی میں اپنے رب کی پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا ”۔ یہ ہے بےجا غرور ، اب نہایت ہی برمحل تنبیہہ آتی ہے۔

فلننبئن الذین ۔۔۔۔ عذاب غلیظ (41 : 50) “ حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازماً ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ”۔ یہ ہے انسان کہ جب اللہ اسے خوشحال بناتا ہے۔ تو یہ سرکشی اختیار کرتا ہے۔ منہ موڑتا ہے اور غرور کرتا ہے۔ لیکن اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو پھر گرجاتا ہے۔ اپنے آپ کو ذلیل و خوار سمجھتا ہے۔ حقیر و لاچار ہوتا ہے۔ اور گڑ گڑانے اور بلبلانے لگتا ہے ، لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے۔

ذرا دیکھئے تو سہی ، قرآن کریم نے انسانی نفسیات کے چھوٹے بڑے عمل اور رد عمل کو کس باریکی سے ریکارڈ کیا ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے جو خالق انسان ہے اور خود خالق بتا رہا ہے کہ یہ ہے حضرت انسان۔ کیونکہ خالق اپنی مخلوق کے کل پرزوں کو اچھی طرح جانتا ہے ، اللہ جانتا ہے کہ یہ ان نشیب و فراز میں پھرتا رہتا ہے ، الا یہ کہ اسے صراط مستقیم کی طرف پکڑ کرلے جایا جائے۔ تب وہ راہ راست پر چلتا ہے۔

نفس انسانی کی اس نہایت ہی ننگی تصویر کے بعد اللہ ان سے پوچھتا ہے کہ تم اس وقت کیا کرو گے کہ جس کتاب کی تم تکذیب کرتے ہو۔ اگر یہ اللہ کی جانب ہی سے ہو اور تم اس عذاب کے مستحق ہوجاؤ جس سے تمہیں ڈرایا جارہا ہے اور اس وقت تم تکذیب اور دشمنی کے عواقب و نتائج کا اپنے آپ کو مستحق کرلو۔