ولقد جاءكم يوسف من قبل بالبينات فما زلتم في شك مما جاءكم به حتى اذا هلك قلتم لن يبعث الله من بعده رسولا كذالك يضل الله من هو مسرف مرتاب ٣٤
وَلَقَدْ جَآءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِى شَكٍّۢ مِّمَّا جَآءَكُم بِهِۦ ۖ حَتَّىٰٓ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ ٱللَّهُ مِنۢ بَعْدِهِۦ رَسُولًۭا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ ٱللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌۭ مُّرْتَابٌ ٣٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 34 { وَلَقَدْ جَآئَ کُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَـبْلُ بِالْبَـیِّنٰتِ } ”اور دیکھو ! اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف علیہ السلام آئے تھے واضح نشانیاں لے کر“ تمہارے اسی ملک مصر میں اس سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام بھی اللہ کے نبی کی حیثیت سے تمہارے آباء و اَجداد کے پاس آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تاویل الاحادیث کا علم عطا کیا تھا۔ انہوں نے بادشاہ کو اس کے خواب کی تعبیر بتلا کر آنے والی قحط سالی کے تدارک کی تدبیر بھی بتائی تھی اور اس طرح اس ملک کو تباہی سے بچایا تھا۔ اس کے باوجود تمہاری قوم نے نہ تو ان کی نصیحتوں پر کان دھرا اور نہ ہی انہیں علیہ السلام اللہ کا نبی مانا۔ اس آیت سے ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ ﷺ کے درمیان بنی اسرائیل میں کوئی اور نبی نہیں آئے۔ اگر حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد کوئی اور نبی بھی آئے ہوتے تو مومن ِآلِ فرعون ان کا بھی ذکر کرتے۔ البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک چودہ سو سال کے دوران بنی اسرائیل میں بغیر کسی وقفے کے مسلسل نبوت رہی۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ نکتہ بھی مد نظر رہے کہ آپ علیہ السلام رسول نہیں ‘ صرف نبی تھے۔ { فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا جَآئَ کُمْ بِہٖ } ”لیکن تم شکوک و شبہات میں ہی پڑے رہے ان تعلیمات کے بارے میں جو وہ علیہ السلام تمہارے پاس لے کر آئے تھے۔“ { حَتّٰیٓ اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا } ”یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوگئے تو تم نے کہا کہ اب ان کے بعد اللہ کسی اور کو رسول بنا کر نہیں بھیجے گا۔“ یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں تو انہیں اللہ کا پیغمبر تسلیم نہ کیا مگر فوت ہونے پر ان کا ذکر پیغمبر کے طور پر ہی کیا۔ { کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ } ”اسی طرح اللہ گمراہ کردیتا ہے ان لوگوں کو جو حد سے بڑھنے والے اور شکوک و شبہات میں مبتلا رہنے والے ہوں۔“