وما ارسلنا في قرية من نذير الا قال مترفوها انا بما ارسلتم به كافرون ٣٤
وَمَآ أَرْسَلْنَا فِى قَرْيَةٍۢ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَآ إِنَّا بِمَآ أُرْسِلْتُم بِهِۦ كَـٰفِرُونَ ٣٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

وما ارسلنا ۔۔۔۔۔۔ بہ کفرون (24)

یہ ایک عام رویہ ہے ، بار بار دہرایا جاتا ہے ، اس دنیا میں۔ زمانوں سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ خوشحالی دلوں کو سخت کردیتی ہے دلوں سے احساس ختم ہوجاتا ہے۔ فطرت بگڑ جاتی ہے۔ اور باطل کے نیچے دب جاتی ہے۔ اسے دلائل ہدایت نظر ہی نہیں آتے۔ اس لیے ہدایت کے مقابلے میں مفسدین اپنے آپ کو اونچا سمجھتے ہیں اور ان کے سینے روشنی کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔

ہمیشہ یوں ہوتا ہے کہ اہل ثروت اور کھاتے پیتے لوگوں کی جھوٹی قدریں ان کو دھوکہ دیتی ہیں۔ ان کے پاس جو دولت اور قوت ہوتی ہے وہ ان کو دھوکے میں ڈالتی ہے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ اثر ان کو عذاب الٰہی سے بھی بچا لے گا۔ اللہ نے جع ان کو دولت دی ہے یہی تو اللہ کی رضا کی علامت ہے اور یہ کہ وہ حساب و کتاب اور جواب دہی کے مقام سے بلند ہیں۔