نکاح اور طلاق کے قوانین بیان کرتے ہوئے بار بار تقویٰ اور احسان کی تلقین کی جارہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی حکم کو اس کی اصلی روح کے ساتھ زیرِ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ کے افراد خالص قانونی معاملہ کرنے والے نہ ہوں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اسی کے ساتھ ان کو یہ کھٹکا لگا ہوا ہو کہ دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک نہ کرنا خود اپنے بارے میں بہتر سلوک نہ کيے جانے کا خطرہ مول لینا ہے۔ کیوں کہ بالآخر سارا معاملہ خدا کے یہاں پیش ہونا ہے اور وہاں نہ لفظی تاویلیں کسی کے کام آئیں گی اور نہ کسی کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ معاملہ سے متعلق کسی بات کو چھپا سکے۔
اگر نکاح کے وقت عورت کا مہر مقرر ہوا اور تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوگئی تو باعتبار قانون آدھا مہر دینا لازم کیا گیا ہے۔ مگر خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ دونوں فريق اس معاملہ میں قانونی برتاؤ کے بجائے فیاضانہ برتاؤ كا طريقه اختيار كرنا چاهيں۔ عورت کے اندر یہ مزاج ہو کہ جب تعلق قائم نہیں ہوا تو میں آدھا مہر بھی چھوڑ دوں۔ مرد کے اندر یہ جذبہ ابھرے کہ اگر چہ قانوناً میرے اوپر صرف آدھے کی ذمہ داری ہے مگر فیاضی کا تقاضا ہے کہ میں پورا کا پورا ادا کردوں— فیاضی اور وسعتِ ظرف کا یہی مزاج تمام معاملات میں مطلوب ہے۔ وہی معاشرہ مسلم معاشرہ ہے جس کے افراد کا یہ حال ہو کہ ہر ایک دوسرے کو دینا چاہے، نہ یہ کہ ہر ایک دوسرے سے لینے کا حریص بنا ہوا ہو۔ مزید یہ کہ وسعتِ ظرف کا یہ معاملہ دشمنی کے وقت بھی ہو، نہ کہ صرف دوستی کے وقت۔