Anda sedang membaca tafsir untuk kumpulan ayat dari 26:176 hingga 26:184
كذب اصحاب الايكة المرسلين ١٧٦ اذ قال لهم شعيب الا تتقون ١٧٧ اني لكم رسول امين ١٧٨ فاتقوا الله واطيعون ١٧٩ وما اسالكم عليه من اجر ان اجري الا على رب العالمين ١٨٠ ۞ اوفوا الكيل ولا تكونوا من المخسرين ١٨١ وزنوا بالقسطاس المستقيم ١٨٢ ولا تبخسوا الناس اشياءهم ولا تعثوا في الارض مفسدين ١٨٣ واتقوا الذي خلقكم والجبلة الاولين ١٨٤
كَذَّبَ أَصْحَـٰبُ لْـَٔيْكَةِ ٱلْمُرْسَلِينَ ١٧٦ إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ ١٧٧ إِنِّى لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌۭ ١٧٨ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُونِ ١٧٩ وَمَآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ١٨٠ ۞ أَوْفُوا۟ ٱلْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُخْسِرِينَ ١٨١ وَزِنُوا۟ بِٱلْقِسْطَاسِ ٱلْمُسْتَقِيمِ ١٨٢ وَلَا تَبْخَسُوا۟ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ١٨٣ وَٱتَّقُوا۟ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلْجِبِلَّةَ ٱلْأَوَّلِينَ ١٨٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔

تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔

خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔