Anda sedang membaca tafsir untuk kumpulan ayat dari 24:36 hingga 24:39
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

(فی بیوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والاصال رجال ۔۔۔۔۔۔۔ والابصار لیجز یھم اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔ بغیر حساب ) (36 تا 83)

یہاں اللہ کے نور کی تمثیل اور ان گھروں کی تمثیل میں ایک خاص تعلق ہے اور یہ قرآن کریم کے انداز بیان کافی کمال ہے۔ طاق کے اندر چراغ روشن ہے اور گھروں کے اندر دل مومن روشن ہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان مشاکلت ہے۔

یہ گھر ایسے ہیں کہ اللہ نے حکم دینا ہے کہ ان کی دیواروں کو بلند کیا جائے اور ان کی تعمیر کی جائے۔ ان کو بلند کرنے کے اذن سے مراد ان کو تعمیر کرنے کا حکم دینا ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کریں۔ چناچہ یہ گھر قائم کردیئے گئے ہیں ‘ بلند ہیں اور پاک اور ستھرے ہیں۔ ان کا منظر اس کائنات کے منظر لے مشابہ ہے جہاں نور ربی پھیلا ہوا ہے۔ ان گھروں کی بلندی اس لیے ہے کہ یہاں اللہ کا نام لیا جائے۔

ویذکر فیھا اسمہ (24 : 36) ” اس میں اللہ کا نام یاد کیا جائے “۔ اور یہ پاک دل اللہ کے ساتھ وابستہ ہوں ‘ اللہ کی تسبیح کرتے ہوں۔ اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ نماز بھی پڑھنے والے ہوں۔ اللہ کی راہ میں دینے والے بھی ہوں۔

(رجال لا تلھیھم۔۔۔۔۔۔۔۔ وایتآء الزکوۃ) (24 : 37) ” ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت صلوۃ سے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کردیتی “۔ تجارت اور خریدو فروخت کمانے اور دولت جمع کرنے کے ذرائع ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کاموں میں مشغول رہنے کے باوجود اللہ کے حقوق یعنی نماز اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی یعنی زکوۃ سے غافل نہیں ہوتے۔

(یخافون۔۔۔۔۔ والابصار) (24 : 37) ” وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرانے کی نوبت آجائے گی “۔ دل الٹے ہوں گے یعنی ان کے اندر خوف و ہر اس کی وجہ سے کوئی قرار نہ ہوگا ‘ اور یہ دل چونکہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اس لیے تجارت اور خیرد و فروخت انہیں اللہ کے ذکر سے روک نہیں سکتے۔

لیکن اس خوف کے ساتھ امید بھی وابستہ ہے۔ وہ مایوس نہیں ہوتے۔ وہ اللہ سے امیدیں باندھے ہوئے ہوتے ہیں۔

(لیجز یھم اللہ۔۔۔۔ من فضلہ) (24 : 38) ” تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بہترین اعمال کی جزا ان کو دے اور مزید فضل سے نوازے “۔ ان کی امید ناکام بھی نہیں رہتی ۔ اس لیے کہ واللہ یرزق من یشآء بغیر حساب (24 : 38) ” اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب دیتا ہے “ کیونکہ اللہ کے فضل کے کوئی حدود وقیود نہیں ہیں۔

آسمانوں اور زمین کے اندر روشن ہونے والے اس نور کے بالمقابل ‘ اللہ کے ان گھروں میں پائے جانے والے اس نور کے بالمقابل اہل ایمان کے دلوں میں روشن نور کے بالمقابل ‘ یہاں قرآن مجید ظلمات اور تاریکیوں کے ایک جہان کو بھی پیش کرتا ہے۔ اس جہان میں کوئی روشنی نہیں ہے۔ اس جہان میں کوئی امن و سکون نہیں ہے۔ ہر طرف خوف کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ اس میں ہر طرف بر بادی ہی بربادی ہے۔ کوئی خیر نہیں ہے۔ یہ اہل کفر کا جہان ہے اور ایک کافر کی دنیا ہے۔ اس کے خدوخال اور نگ ڈھنگ کچھ یوں ہیں۔

(والذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ سریع الحساب اوکظلمت۔۔۔۔۔۔۔۔ من نور (39 : 40) ”(اس کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بےآب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا ‘ مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا ‘ بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا ‘ جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا ‘ اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ‘ کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے ‘ اس پر ایک اور موج ‘ اور اس کے اوپر بادل ‘ تاریکی پر تاریکی مسلط ہے ‘ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں “۔

یہاں قرآن کریم نے اہل کفر کی زندگی اور ان کے نظریات اور سرگرمیوں کی تصویر کشی دو طرح کی ہے۔ یہ دو مشاہد ہیں جو بطور تمثیل دیئے گئے ہیں۔

پہلی تمثیل ہے ان کے اعمال کی۔ یہ اعمال ایسے نظر آتے ہیں جس طرح چٹیل وسعی ریگستان میں سراب نظر آتا ہے۔ یہ سراب ٹیلے پانی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ پیاسا اس کے پیچھے بھگتا ہے۔ وہ توقع تو یہ کرتا ہے کہ سراب تک پہنچ کر پانی پئے گا لیکن وہ اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ وہاں تک پہنچ کر وہ وہاں کیا پانے والاہوتا ہے۔ یہاں منظر میں اچانک تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ شخص جو سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے پیاسا ہے ‘ پانی کی تلاش میں ہے۔ اور غافل ہے اس معاملے سے جو اسے پیش آنے والا ہے۔ یہ جب منزل تک پہنچتا ہے تو وہاں اسے پانی نہیں ملتا۔ وہاں اسے وہ چیز ملتی ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اب یہ اس نئی حقیقت سے دو چار ہو کر خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ امیدیں کٹ جاتی ہیں۔

وجد اللہ عندہ (24 : 39) ” وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا “۔ وہ اللہ موجود ہے جس کا وہ منکر تھا اور یہ شخص اللہ وحدہ کا دشمن تھا۔ اس سراب میں اس کا منتظر اللہ تھا۔ اگر اس سراب میں یہ شخص اپنے کسی دنیاوی دشمن کو پائے تو پھر یہ سخت خوفزدہ ہوجائے لیکن یہ وہاں خالق کائنات کو پارہا ہے جو جبار ہے۔ بڑی قوت والا ہے اور سخت انتقام لینے والا بھی ہے۔ وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ پانی کے بجائے اس کا وہاں حساب و کتاب شروع ہوجاتا ہے۔

فوقہ حسابہ واللہ سریع الحساب (24 : 39) ” جس نے اس کا پورا پورا حساب چکادیا اور اللہ کو حساب لینے میں دیر نہیں لگتی “۔ یہ منظر سرعت اور ستابی کے ساتھ اچانک سرپرائز کو پیش کرتا ہے اور سرعت اور سراب کے ساتھ ‘ جلدی سے حساب چکا نا اور اچانک خوف میں مبتلا ہونا ‘ فنی ہم آہنگی ہے۔

دوسرا منظر یہ ہے کہ اس میں جھوٹی روشنی کے بعد اندھیرے چھا جاتے ہیں ‘ یوں کہ ایک انسان سمندری جہاز میں ہے ‘ یہ جہاز سمندر کی ظالم لہروں میں گھرا ہوا ہے ‘ خوفناک موج کے اوپر موج اٹھ رہی ہے ‘ ان کے اوپر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسا خوفناک اندھیرا ہوگیا ہے کہ کوئی شخص اگر اپنے ہاتھ کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ دیکھ نہیں سکتا ‘ شدت خوف اور شدت تاریکی کی وجہ سے ۔

کفر کیا ہے ‘ یہ دراصل امواج زندگی میں ایک گھمبیر اندھیرا ہے۔ یہ اندھیرا اللہ کے نور کو نظروں سے اوجھل کردیتا ہے۔ یہ اس قدر گہری گمراہی ہے کہ اس میں انسان کو ہاتھ کی طرح قریبی دلائل بھی نظر نہیں آتے۔ کفر اس قدر خوفناک صورت حال کا نام ہے کہ اس میں انسان کے لیے سکون وقرار نہیں ہوتا۔

ومن لم یجعل اللہ لہ نورا فما لہ من نور (24 : 40) ” جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے کوئی نور نہیں ہے “۔ اللہ کا نور کیا ہے ‘ وہ ہدایت جو اللہ دل مومن میں ڈال دیتا ہے وہ اللہ کا نور ہے۔ یہ ہدایت انسان کے دل کو کھول دیتی ہے اور انسان کی فطرت نو اس میں قدرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔ یوں انسانی قلب میں موجود نور الہی اس کائنات میں موجود نور الہی کے ساتھ یکجا ہوجاتا ہے اور جس شخص کا اتصال اس نور کائنات سے نہ ہوسکا تو وہ اندھیروں میں ہے اسے کچھ نظر نہ آئے گا۔ یہ ہمیشہ خوفناک حالات میں ہوگا جن میں کوئی امن نہ ہوگا۔ یہ شخص ایسی گمراہی میں پڑجائے گا جس سے اس کا نکلنا مشکل ہوگا اور اس کے اعمال کا انجام سراب ہوگا اور سراب کے پیچھے بھاگنے والا ظاہر ہے کہ ہلاک ہوجائے گا۔ کیونکہ کفار کے اعمال کے پیچھے کوئی نظر یہ اور کوئی نور نہیں ہوتا۔ نور ایمان کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اس لیے کوئی اصلاحی کام بغیر ایمان کے نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی ہدایت ہی نور ہے اور اللہ کا ڈر ہی نور ہے۔

یہ تھے مناظر کفر و ضلالت اور مناظر تاریکی۔ اس کے بعد پھر اس کائنات میں ایمان اور نور کے مناظر آتے ہیں۔ یہاں پوری کائنات میں نور ہی کا عالم ہے۔ تمام موجودات اس نور میں تسبیح پڑھ رہی ہیں اور عالم نماز میں ہیں۔ انس ہوں ‘ جن ہوں ‘ زمین ہو یا افلاک ہوں۔ زندہ ہوں یا جمادات ہوں ‘ تمام کائنات تسبیح پڑھ رہی ہے اور تمام موجودات اس زمرے میں ہمقدم ہیں ‘ یوں کہ ایک دانا کا وجدان اس سے ارتعاش میں آجاتا ہے اور دل معرفت سے بھر جاتا ہے۔