Anda sedang membaca tafsir untuk kumpulan ayat dari 11:61 hingga 11:63
۞ والى ثمود اخاهم صالحا قال يا قوم اعبدوا الله ما لكم من الاه غيره هو انشاكم من الارض واستعمركم فيها فاستغفروه ثم توبوا اليه ان ربي قريب مجيب ٦١ قالوا يا صالح قد كنت فينا مرجوا قبل هاذا اتنهانا ان نعبد ما يعبد اباونا واننا لفي شك مما تدعونا اليه مريب ٦٢ قال يا قوم ارايتم ان كنت على بينة من ربي واتاني منه رحمة فمن ينصرني من الله ان عصيته فما تزيدونني غير تخسير ٦٣
۞ وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَـٰلِحًۭا ۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ ٱلْأَرْضِ وَٱسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَٱسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّى قَرِيبٌۭ مُّجِيبٌۭ ٦١ قَالُوا۟ يَـٰصَـٰلِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّۭا قَبْلَ هَـٰذَآ ۖ أَتَنْهَىٰنَآ أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ ءَابَآؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِى شَكٍّۢ مِّمَّا تَدْعُونَآ إِلَيْهِ مُرِيبٍۢ ٦٢ قَالَ يَـٰقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍۢ مِّن رَّبِّى وَءَاتَىٰنِى مِنْهُ رَحْمَةًۭ فَمَن يَنصُرُنِى مِنَ ٱللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُۥ ۖ فَمَا تَزِيدُونَنِى غَيْرَ تَخْسِيرٍۢ ٦٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت صالح نے اپنی قوم کو ایک خدا کی عبادت کی طرف بلایا۔ یہی ہر زمانہ میں تمام پیغمبروں کا مقصد تھا۔ مگر حضرت صالح کی قوم آپ کے پیغام کو قبول نہ کر سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ اس کو براہِ راست خدا سے جوڑنے کی بات کرتے تھے، جب کہ قوم کا حال یہ تھا کہ وہ خدا کے نام پر صرف اپنے اعاظم واکابر سے جڑی ہوئی تھی۔

ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے کسی چیز کی اہمیت اور معنویت صرف اس وقت سمجھ پاتے ہیں جب کہ ان کے قومی بزرگوں کے قول وعمل میں اس کی تصدیق مل جائے۔ اب چونکہ حضرت صالح کے پاس صرف دلیل کا زور تھا، ان کی قوم ان کی بات کی اہمیت کو محسوس نہ کرسکی۔ حضرت صالح جس دین کی طرف بلارہے تھے اس کی اہمیت خدا کی وحی اور زمین و آسمان کی نشانیوں میں غور کرنے سے واضح ہوتی تھی۔ جب کہ ان کی قوم صرف اس دین کی اہمیت سے باخبر تھی جو اکابر قوم کے ملفوظات اور معمولات سے ثابت ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی قوم آپ کے دلائل کے مقابلہ میں لاجواب ہو کر بھی بس ایک قسم کے شبہ کی حالت میں پڑی رہی۔

حضرت صالح، دوسرے تمام پیغمبروں کی طرح، شخصیت اور ذہانت میں اپنی قوم کے ممتاز فرد تھے۔ لوگ امید رکھتے تھے کہ بڑے ہو کر وہ قوم کے ایک کار آمد فرد ثابت ہوں گے۔ مگر وہ بڑی عمر کو پہنچے تو انھوں نے قوم کے مروجہ مذہب پر تنقید شروع کردی۔ یہ دیکھ کر قوم کے لوگوں کو ان کے بارہ میں سخت مایوسی ہوئی۔ انھوںنے کہا، ہم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ تم ہمارے قائم شدہ مذہبی نظام کے ایک ستون بنو گے۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ تم ہمارے مذہبی نظام کو بے بنیادثابت کرنے پر اپنا سارا زور لگائے ہوئے ہو — یہی معاملہ ہر دور میں خدا کے سچے داعیوں کو اپنی قوم کی طرف سے پیش آیا ہے۔