Stai leggendo un tafsir per il gruppo di versi 95:1 a 95:3
والتين والزيتون ١ وطور سينين ٢ وهاذا البلد الامين ٣
وَٱلتِّينِ وَٱلزَّيْتُونِ ١ وَطُورِ سِينِينَ ٢ وَهَـٰذَا ٱلْبَلَدِ ٱلْأَمِينِ ٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اللہ انسانی فطرت مستقیمہ پر انجیر ، زیتون ، طور سینا اور پرامن شہر مکہ کی قسم اٹھائی ہے۔ اور یہ قسم دراصل اس حقیقت یعنی فطرت انسان کے لئے ایک موزوں اور مناسبت فریم کا کام دیتی ہے۔ ہم اس سے قبل ثابت کرچکے ہیں کہ جس حقیقت کی تصویر کو فریم کرنے کے لئے جن مناظر قدرت کی قسم اٹھائی جاتی ہے اس حقیقت اور مناظر قدرت کے درمیان ایک خاص مناسبت ہوتی ہے اور یہ کسی جگہ واضح اور کسی جگہ بہت دقیق ولفیف ہوتی ہے۔

طور سینین سے مراد وہ پہاڑ ہے جس کے دامن میں اللہ اور موسیٰ علیہ اسلام کے درمیان مکالمہ ہوا تھا اور بلد امین سے مراد شہر مکہ ہے۔ ان دونوں مقامات کا دینی حقائق کے ساتھ تعلق بالکل واضح ہے۔ انجیر اور زیتون تو بظاہر ان دونوں کا تعلق واضح نہیں ہے کہ ان کا فطرت انسانی اور تخلیق انسانی یا دینی حقائق کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

تین اور زیتون کی تفسیر میں روایات اور اقوال بہت وارد ہیں۔ بعض اقوال میں آیا ہے کہ ” تپن “ سے مراد ” طوتینا “ کا مقام ہے جو دمشق کے قریب ہے .... بعض نے کہا کہ تین سے راد وہ درخت ہے جس کے پتے حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) نے اپنے جسم پر لپیٹے تھے ، جبکہ جنگ میں شیطان کے ورخلانے پر ان کا لباس سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اور اس کے بعد یہ دونوں زمین پر اتارے گئے تھے اور انہوں نے یہاں زندگی کا آغاز کیا تھا۔ بعض اقوال میں یہ تفسیر کی گئی ہے کہ اس سے مراد کشتی نوح کے رکنے اور ٹھہرنے والی پہاڑی ہے جس میں انجیر کے درخت زیادہ اگے ہوئے تھے۔

زیتون کے بارے میں بہت سے اقوال وارد ہیں ، بعض کے مطابق اس سے مراد ” طورزیتا “ ہے جو بیت المقدس میں ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد خود بیت المقدس ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد زیتون کی وہ شاخ ہے جو وہ کبوتر لے کر آیا تھا جسے حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی سے چھوڑا تھا ، تاکہ آپ طوفان کے حالات کا مطالعہ کریں جب یہ کبوتر زیتون کی شاخ لے کر آیا تو آپ نے معلوم کرلیا کہ زمین کے بعض حصوں سے پانی اتر گیا ہے اور وہاں درخت اگ آئے ہیں۔

بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ تین اور زیتون سے وہی پھل مراد ہیں جو ہم کھاتے ہیں اور جانتے ہیں اور ان سے کوئی اشاراتی مفہوم مراد نہیں ہے۔ یا اگر کوئی ہے تو صرف وہ جگہ ہے جہاں یہ اگتے ہیں۔ یہ تو تھے اقوال۔ جہاں تک زیتون کا تعلق ہے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ یہ طور کے پہاڑ میں لگتا ہے۔

وشجرة ............................ للا کلین (20:23) ” اور وہ درخت جو طور سینا سے نکلتا ہے تیل کی پیداوار دیتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن ہے “ اور سورة عبس میں ہے۔

وزیتونا ونخلا (29:80) ” اور زیتون اور کھجور کے درخت “۔ جبکہ تین کا ذکر پورے قرآن مجید میں صرف اس جگہ آیا ہے۔

لہٰذا مذکورہ بالا اقوال میں سے کسی ایک کے بارے میں ہم کوئی قطعی بات نہیں کرسکتے ، البتہ پورے قرآن مجید میں قسموں کے معاملے میں قرآن کریم کے انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تین اور زیتون سے اشارہ ایسے مقامات یا ایسے واقعات کی طرف ہو جن کا تعلق دین اور ایمان سے ہو ، یا اس بات سے ہو جو جواب قسم کے طور پر آرہی ہے کہ انسان کو ہم نے ایک بہترین انداز پر پیدا کیا۔ شاید جنت کی وہ جگہ مراد ہو جہاں انسان نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تاکہ ان دونوں قسموں کا یہ اشارہ بھی قرآن کریم کے عام انداز کے ساتھ ہم رنگ ہوجائے اور یہ فریم اس تصویر کے ہم آہنگ ہوجائے جو اس میں ہے۔ موضوع کے اعتبار سے سورت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے :