Stai leggendo un tafsir per il gruppo di versi 91:11 a 92:3
كذبت ثمود بطغواها ١١ اذ انبعث اشقاها ١٢ فقال لهم رسول الله ناقة الله وسقياها ١٣ فكذبوه فعقروها فدمدم عليهم ربهم بذنبهم فسواها ١٤ ولا يخاف عقباها ١٥ والليل اذا يغشى ١ والنهار اذا تجلى ٢ وما خلق الذكر والانثى ٣
كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَىٰهَآ ١١ إِذِ ٱنۢبَعَثَ أَشْقَىٰهَا ١٢ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ ٱللَّهِ نَاقَةَ ٱللَّهِ وَسُقْيَـٰهَا ١٣ فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنۢبِهِمْ فَسَوَّىٰهَا ١٤ وَلَا يَخَافُ عُقْبَـٰهَا ١٥ وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ١ وَٱلنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ٢ وَمَا خَلَقَ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ ٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

کذبت ثمود ................................ عقبھا

قوم ثمود اور ان کے نبی حضرت صالح علہی السلام کی کہانی قرآن مجید میں کئی مقامات پر آتی ہے۔ ہر مقام پر ہم نے اس پر بات کی ہے اور ابھی سورة الفجر میں ، اسی پارے میں یہ کہانی گزری ہے۔ تفصیلات ان مقامات پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

یہاں صرف یہ کہا گیا ہے کہ قوم ثمود نے صرف اپنی سرکشی کی وجہ سے اپنے نبی کی تکذیب کی۔ اور اس سرکشی کے سوا کوئی اور جواز اس کے لئے نہ تھا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ان میں سے ایک نہایت ہی شقی القلب شخص اٹھا اور اس نے ناقتہ اللہ کو قتل کردیا۔ یہ شخص ان میں نہایت سنگدل اور سرکش تھا کہ وہ اس قدر عظیم جرم کے ارتکاب کے لئے تیار ہوگیا۔ حالانکہ ان کے نبی نے واضح الفاظ میں ان کو متنبہ کردیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ اس ناقہ کو کوئی گزندنہ پہنچانا ، نہ اس پانی میں مداخلت کرنا جس کو اللہ نے تمہارے اور ناقہ کے درمیان تقسیم کردیا ہے کہ ایک دن تمہارے لئے اور ایک دن اس ناقہ کے لئے ہے اور یہ تقسیم اس لئے ہوئی تھی کہ انہوں نے اللہ کے نبی سے معجزے کا مطالبہ کردیا تھا تو اللہ نے اس ناقعہ کو معجزہ قرار دیا۔ اس ناقہ کی کوئی نہ کوئی معجزانہ شان تو بہرحال ہوگی۔ یہاں ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جاتے۔ اس لئے کہ خود اللہ نے اس شان اعجاز کی تفصیلات نہیں دی ہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ کی جانب سے ڈرانے والے کی تکذیب کی اور ناقہ کو قتل کردیا۔ اور جس شخص نے عملاً یہ فعل اپنے ذمہ دیا۔ وہ ان میں سے بہت زیادہ بدبخت اور شقی تھا۔ لیکن ذمہ داری سب نے لی۔ اور سب ہی ذمہ دار اس لئے قرار پائے کہ انہوں نے اس شخص کو اس برے فعل سے نہ روکا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اسلام کے اصولوں میں سے یہ بنیادی اصول ہے کہ دنیا کی اجتماعی زندگی میں ذمہ داری بھی اجتماعی ہوتی ہے اور یہ اجتماعی ذمہ داری کا قانون اسلام کے انفرادی ذمہ داری کے اصول کے خلاف نہیں ہے۔ یعنی آخرت میں کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہوگا جو اس نے کمایا ، کیونکہ اسلام میں یہ بھی گناہ کبیرہ ہے کہ کوئی دوسروں کو نصیحت کرنا چھوڑ دے ، دوسروں کی اصلاح ، ان کی کفالت ، سے دسکش ہوجائے اور نیکی کرنے اور ظالم کا ہتھ پکڑنے پر لوگوں کو نہ ابھارے۔

جب انہوں نے اس عظیم جرم کا ارتکاب کیا تو پھر دست قدرت حرکت میں آیا۔

فدمدم علیھم ............................ فسوھا (14:91) ” آخر کار ان کے گناہ کی پاداش میں ان کے رب نے ان پر ایسی آفت توڑی کہ ایک ساتھ سب کو پیوندخاک کردیا “۔” دمدمہ “ کے معنی غضب کے ہوتے ہیں اور غضب کے نتیجے میں جو انتفام اور عذاب آتا ہے۔ لفظ ” دمدم “ کا تلفظ ہی بناتا ہے کہ وہ عذاب کس قدر سخت ہوگا ۔ اس لفظ کا تلفظ اور ترنم ہی ایک خوفناک منظر کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اللہ نے ان کی زمین کو اوپر نیچے کردیا اور برابر کردیا۔ یہ ایک ایسی تصویر کشی ہے جس سے نہایت ہی ہمہ گیر بربادی کا اظہار ہوتا ہے۔

ولا یخاف عقبھا (15:91) ” اور اسے اس کے کسی برے نتیجے کا خوف نہیں ہے “۔ وہ تو ہر کمزوری سے پاک ہے ، وہ کس سے خوف کرسکتا ہے ؟ کہاں خوف کھاسکتا ہے اور کب خائف ہوسکتا ہے ؟ “۔

دراصل اس انداز تعبیر سے ایک لازمی مفہوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ کی گرفت نہایت سخت ہوتی ہے ، اس لئے کہ دنیا کا جو شخص بھی اگر کسی انجام سے نہ ڈرتا ہو تو وہ سخت ترین مظالم ڈھاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی پکڑ سخت ہوگی کیونکہ اللہ سے کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ

ان بطش .................... لشدید ” بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے “۔ اس لئے یہ کہہ کر کہ وہ اپنے کسی فعل کے برے نتیجے سے نویں ڈرتا ، یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کی پکڑ بہت شدید ہوگی۔

یوں نفس انسانی کو اس کائنات کے عظیم حقائق کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور اس کائنات کے مشاہد اور مناظر کے ساتھ نفس انسانی کو متعلق کیا جاتا ہے۔ پھر نفس انسانی اور مشاہد کائنات دونوں کو اللہ کی اس سنت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے جو اس نے سرکشوں اور تکذیب کرنے والوں کی گرفت کے لئے وضع کی ہے۔ یہ سب واقعات اللہ کی تقدیر کے حدود کے اندر ہوتے ہیں۔ جس کے نظام میں اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہے ۔ ہر حادثہ کا ایو وقت طے شدہ ہے۔ ہر واقعہ کا ایک مقصد ہوتا ہے اور اس تدقر کے نظام میں ہر ہر قدم پر حکمت ربانی کار فرما ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ نفس کا بھی رب ہے۔ اس کائنات کا بھی رب ہے اور نظام قضا وقدر کا بھی وہی منتظم ہے۔ لہٰذا یہ سب اس کی وسیع تر اسکیم مشیت کے دائرے میں ہیں۔