لكيلا تاسوا على ما فاتكم ولا تفرحوا بما اتاكم والله لا يحب كل مختال فخور ٢٣
لِّكَيْلَا تَأْسَوْا۟ عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا۟ بِمَآ ءَاتَىٰكُمْ ۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍۢ فَخُورٍ ٢٣
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 23{ لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ } ”تاکہ تم افسوس نہ کیا کرو اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے“ کوئی اچھا موقع ہاتھ سے نکل جانے پر انسان رہ رہ کر افسوس کرتا اور پچھتاتا ہے کہ اگر میں اس وقت یوں کرلیتا تو میرا یہ کام ہوجاتا ‘ اگر فلاں شخص فلاں وقت فلاں رکاوٹ کھڑی نہ کردیتا تو میں فلاں نقصان سے بچ جاتا وغیرہ وغیرہ۔ ایسے پچھتاوے بعض اوقات زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر اللہ اور اس کے فیصلوں پر انسان کا ایمان مضبوط ہو تو وہ اپنے بڑے سے بڑے نقصان کو بھی یہ کہہ کر بھلا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو میرے حق میں ایسا ہی منظور تھا اور اس چیز کے میرے ہاتھ سے نکل جانے میں ہی خیر تھی ‘ کیونکہ میرے لیے کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے اس کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ سورة البقرۃ کی یہ آیت اس بارے میں بہت واضح ہے :{ وَعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّــکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّــکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ۔ } ”اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو ‘ اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے ‘ تم نہیں جانتے۔“ { وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَا اٰتٰٹـکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِ۔ } ”اور اس پر اترایا نہ کرو جو وہ تمہیں دے دے ‘ اور اللہ کو بالکل پسند نہیں ہیں اترانے والے اور فخر کرنے والے۔“ ایسی کسی صورت میں انسان کے لیے اترانے کا جواز اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے جو کچھ بھی دیا جاتا ہے دراصل اس کی آزمائش کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اس حقیقت کو کسی وقت بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس دنیا میں ہمیں جو نعمت ‘ صلاحیت یا دولت ملتی ہے اس کے لیے ہمیں جواب دہ ہونا ہے۔ چناچہ جس انسان کے پاس دنیوی نعمتوں کی جس قدر بہتات ہوگی جوابدہی کے حوالے سے اس کی ذمہ داری بھی اسی حد تک بڑھ جائے گی۔ اکائونٹس کی زبان میں ایسی ذمہ داری کو liability کہا جاتا ہے۔ جب کسی محکمے یا ادارے کی balance sheet تیار ہوتی ہے تو اس ادارے کو ملنے والا سرمایہ liability کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے۔ کھاتے میں liability کا اندراج ہوجانے کے بعد اس کی ایک ایک پائی کا حساب دینا اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انسان کو دنیا میں جو کچھ دیتا ہے وہ اس کے ذمہ liability ہے۔ کل قیامت کے دن اس میں سے ہرچیز کا آڈٹ ہونا ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ بندے سے پوچھے گا کہ تمہیں جو مال دیا گیا تھا بتائو اس کا تم نے کیا کیا ؟ میری طرف سے دی گئی قوت ‘ ذہانت اور دوسری صلاحیتوں کو کہاں کہاں صرف کیا ؟ دنیا بنانے میں کھپایا یا آخرت کمانے میں لگایا ؟ اس احتساب یا آڈٹ کا تصور کر کے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کھاتے کی فکر کرنی چاہیے۔ جیسے آج ہمارے بہت سے لوگ ورلڈ بینک ‘ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی سطح کے دوسرے اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور لاکھوں ڈالر تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یقینا یہ بہت بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے ‘ لیکن ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کی چاکری کر رہے ہیں ؟ اور کس کی رتھ میں گھوڑے بن کر جتے ہوئے ہیں ؟ ظاہر ہے وہ باطل نظام کی خدمت کر رہے ہیں اور اسی نظام سے اپنی خدمت کا معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آخرت کے آڈٹ کے وقت وہ اپنی balance sheet کو کیسے justify کریں گے۔ چناچہ انسان کو مال و دولت اور دوسری نعمتوں پر اترانے کے بجائے ان کے حساب کتاب کی فکر کرنی چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ چیزیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے طور پر دی گئی ہیں۔ اگر وہ اس آزمائش میں ناکام ہوگیا تو یہی نعمتیں آخرت میں اس کے گلے کا طوق بن جائیں گی۔ اس حوالے سے امام احمد بن حنبل - کا ایک واقعہ بہت عبرت انگیز ہے۔ آپ رح کو خلیفہ وقت کی طرف سے ”خلق ِقرآن“ کے مسئلے پر جیل میں ڈالا گیا۔ خلیفہ آپ رح سے اپنی مرضی کا فتویٰ حاصل کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے خلیفہ کے حکم پر جیل میں آپ رح پر بےپناہ تشدد ہوا۔ روایات میں آتا ہے کہ جس انداز میں آپ رح کو پیٹا جاتا تھا ایسی مار کسی ہاتھی کو پڑتی تو وہ بھی بلبلا اٹھتا ‘ مگر اس بےرحم تشدد کو آپ رح نے ایسے حوصلے اور صبر سے برداشت کیا کہ کبھی آنکھوں میں آنسو تک نہ آئے۔ مگر جب نئے خلیفہ کے دور میں آپ رح کو جیل سے رہا کیا گیا اور خلیفہ کے ایلچی آپ رح کی خدمت میں اشرفیوں کے تھیلے لے کر حاضر ہوئے تو ان تھیلوں کو دیکھ کر آپ رح رو پڑے۔ آپ رح نے روتے ہوئے اللہ کے حضور عرض کی کہ اے اللہ ‘ یہ آزمائش بہت سخت ہے ! میں اس سے عہدہ برآ ہونے کے قابل نہیں ہوں ‘ مجھے اس امتحان میں مت ڈال ! اس حوالے سے دوسری انتہا پر برصغیر کے قوم فروشوں کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر میں انگریزوں نے بڑی بڑی جاگیروں ‘ عہدوں اور خطابات کے ذریعے یہاں کے لوگوں کو خریدا اور حکمرانوں کے ہاتھوں بکنے کے بعد وہ لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے اپنے آقائوں کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ بہرحال یہ ہر انسان کا اپنا فیصلہ ہے کہ اس کی ترجیح دنیا ہے یا آخرت ؟