ہر آدمی کے اندر پیدائشی طور پر بڑا بننے کا جذبہ چھپا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص کی کوئی بات مل جائے تو وہ اس کو خوب نمایاں کرتا ہے تاکہ اس طرح اپنے کو بڑا اور دوسرے کو چھوٹا ثابت کرے۔ وہ دوسرے کا مذاق اڑاتا ہے، وہ دوسرے پر عیب لگاتا ہے، وہ دوسرے کو برے نام سے یاد کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے بڑائی کے جذبہ کی تسکین حاصل کرے۔
مگر اچھا اور برا ہونے کا معیار وہ نہیں ہے جو آدمی بطور خود مقرر کرے۔ اچھا در اصل وہ ہے جو خدا کی نظر میں اچھا ہو اور برا وہ ہے جو خدا کی نظر میں برا ٹھہرے۔ اگر آدمی کے اندر فی الواقع اس کا احساس پیدا ہوجائے تو اس سے بڑائی کا جذبہ چھن جائے گا۔ دوسرے کا مذاق اڑانا، دوسرے کو طعنہ دینا، دوسرے پر عیب لگانا، دوسرے کو برے لقب سے یاد کرنا، سب اس کو بے معنی معلوم ہونے لگیں گے۔ کیونکہ وہ جانے گا کہ لوگوں کے درجہ و مرتبہ کا اصل فیصلہ خدا کے یہاں ہونے والا ہے۔ پھر اگر آج میں کسی کو حقیر سمجھوں اور آخرت کی حقیقی دنیا میں وہ باعزت قرار پائے تو میرا اس کو حقیر سمجھنا کس قدر بے معنی ہوگا۔