یہ تو ہے پہلا ٹچ اور دوسرا یہ کہ ان کو بتا دیا جاتا ہے کہ امن و عافیت تم جس دنیا کے لئے طلب کرتے ہو ، اس کی حیثیت کیا ہے ؟ ٹھیک ہے اس میں تمہیں بعض قربانیاں تو دینی ہوں گی ، لیکن آخرت میں کامل اجر تمہیں ملیں گے اور تم سے تمہارے مال بھی طلب نہ کرے گا۔
انما الحیوۃ الدنیا ۔۔۔۔۔۔ اموالکم (47 : 36) “ یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے۔ اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا اور وہ تمہارے مال تم سے نہ مانگے گا ”۔
اگر ہماری اس دنیاوی زندگی کے پیچھے کوئی اعلیٰ اور ارفع مقصد نہ ہو تو وہ یقیناً لہو و لعب ہے۔ اگر اس دنیا میں اسلام کے اعلیٰ مقاصد اور اسلامی نظام کے قیام کے ارفع مقاصد نہ ہوں تو پھر کچھ بھی نہیں ہے۔ اسلام کا مقصد زندگی اس دنیا کو آخرت کی کھیتی بنا دیتا ہے۔ اور اس میں اللہ کی خلافت کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنا ہی قیامت میں اچھے نتائج پیدا کرتا ہے۔ آیت کا دوسرا فقرہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
وان تومنوا وتتقوا یوتکم اجورکم (47 : 36) ” اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا “۔ اس دنیا میں ایمان لانا اور تقویٰ اختیار کرنا ہی اس کو لہو و لعب کے دائرے سے نکال دیتا ہے ۔ اور اسے ایک سنجیدہ مقام عطا کرتا ہے اور اسے حیوانی سامان تعیش سے ذرا بلند مقام دیتا ہے۔ دنیا کا نظام پھر نظام خلافت راشدہ بن جاتا ہے اور یہ عالم بالا کے ساتھ پیوستہ ہوتا ہے ۔ جب اسلامی نظام اور قانون شریعت نافذ کردیا جائے تو پھر مومن کی اس دنیا کی زندگی بھی لہو و لعب کے دائرے سے نکل کر ایک عبادت بن جاتی ہے اور مومن کو اس کی تمام سر گرمیوں پر آخرت میں اجر ملتا ہے۔ لیکن باوجود اس کے اللہ لوگوں سے یہ مطالبہ نہیں فرماتا کہ وہ اپنے تمام اموال خرچ کردیں ۔ اسلام دوسرے فرائض اور واجبات میں بھی لوگوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو خوب جانتا ہے کہ انسان فطرتاً تھڑولا ہے۔ اس لیے اللہ نے لوگوں پر ان کی طاقت کے مطابق بوجھ ڈالا ہے۔ اس لیے اللہ نے لوگوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں یہ حکم نہیں دیا کہ وہ سب مال خرچ کردیں ورنہ ان کے دل کا کھوٹ ظاہر ہوجاتا۔