ولتكن منكم امة يدعون الى الخير ويامرون بالمعروف وينهون عن المنكر واولايك هم المفلحون ١٠٤
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌۭ يَدْعُونَ إِلَى ٱلْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ ۚ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ١٠٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

سوال یہ ہے کہ ان یہودی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان دوآسامیوں (Bases) پر استوار ہوکر پھر امت مسلمہ کا منشور اور ہدف کیا ہے ؟ اس کا فریضہ ‘ فریضہ اقامت دین ہے ۔ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام زندگی کا قیام ہے ۔ حق کو باطل پر غالب کرنا ہے ‘ معروف کو منکر پر غالب کرنا ہے ‘ خیر کو پھیلانا ہے اور شر کو روکنا ہے ۔ یہ ہے وہ نصب العین جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ہاتھوں سے ‘ اپنی نظروں کے سامنے ‘ اپنے خاص منہاج کے مطابق اس امت کو برپا کیا ہے ۔ اس نصب العین کا تعین ان الفاظ میں کیا جاتا ہے۔

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

” تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ‘ بھلائی کا حکم دیں ‘ اور برائیوں سے روکیں اور جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔ “ بس یہ ضروری ہوا کہ ایسی جماعت ہر وقت موجود ہو جو بھلائی کی طرف دعوت دے ‘ معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے ۔ ان کے اندر ایک ایسا اقتدار ‘ ایک ایسی قوت ضرور ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے ۔ یہ بات کہ ایک ایسا اقتدار یا ایسا مقتدر اعلیٰ ضروری ہے جو یہ کام کرے ‘ اس پر یہ آیت بصراحت دلالت کرتی ہے ۔ یعنی دعوت الی الخیر ہر وقت ہو اور یہ بات ہر کوئی کرسکتا ہے ‘ لیکن یہاں تو ساتھ ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ بھی وارد ہیں ۔ اگر دعوت اسلامی بغیر اقتدار اعلیٰ کے ممکن العمل بھی ہے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بغیر اقتدار اعلیٰ کے حصول کے ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے صحیح اسلامی تصور حیات یہی ہے کہ ایسا قتدار اعلیٰ ضروری ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے ۔ یہ اقتدار اعلیٰ دعوت الی الخیر کے نصب العین پر قائم ہوگا ۔ اور اس کا مقصد دفعیہ شر ہوگا ۔ یہ اقتدار اعلیٰ ایسا ہوگا جو مکمل اتحاد واتفاق کے نتیجے میں حاصل ہوگا ‘ یہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے نتیجے میں اور اخوت اسلامی کے قیام کے بعد ہوگا ۔ یعنی یہ اقتدار اعلیٰ ‘ یا مملکت یا سلطنت ان دوبنیادوں پر قائم ہوگی یعنی اتحاد اور اخوت اور اس کا نصب العین انسانی زندگی میں اسلامی نظام حیات کا قیام ہوگا۔ اور اس اقتدار اعلیٰ کا قیام اس طرح ہوگا کہ اس نظام کی طرف جو خیر ہی خیر ہے ‘ عام لوگوں کو دعوت دی جائے گی ۔ لوگوں کو اس سے متعارف کرایا جائے گا کہ اس کی نظام کی حقیقت کیا ہے ۔ انہیں یہ بتایا جائے گا کہ اسلامی نظام اقتدار اعلیٰ کا خواہاں ہے تاکہ وہ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے ۔ اور لوگ اس کی اطاعت کریں یا وہ اپنی اطاعت کروائے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَمَا اَرسَلنَا مِن رَّسُولٍ اِلّا لِیُطَاعَ بِاِذنِ اللّٰہِ……………” ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے ‘ وہ صرف اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ “ اس لئے یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظام زندگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ صرف وعظ و ارشاد اور تبلیغ بیان جاری ہو ۔ یہ تو اسلامی نظام کا ایک حصہ اور جزء ہے ۔ اس کا دوسرا اہم جزء یہ ہے کہ ایک ایسا اقتدار اعلیٰ قائم کیا جائے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرے ۔ اور انسانی زندگی میں معروف کو رائج کرے ۔ اور منکر کا قلع قمع کرے ۔ اور اس ” جماعت ممتازہ “ کو بھی بچائے رکھے کہ ہر کس وناکس اس امت کو اپنی خواہشات ‘ اپنی مرغوبات اور شہوات کے بھینٹ نہ چڑھاسکے ۔ اور اسے اپنی ذاتی مصلحتوں کی خاطر استعمال نہ کرسکے ۔ اور معاشرہ کے اندر نیکی اور بھلائی پر مبنی اخلاق کو کوئی اپنی خاص رائے اور اپنے مخصوص تصورات کے تحت تباہ نہ کرسکے ‘ اگرچہ وہ سمجھتا ہو کہ وہ جو کچھ کررہا ہے وہ معروف اور درست ہے۔

یہی وجہ ہے دعوت الی الخیر ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کوئی آسان اور سہل کام نہیں ہے ۔ خصوصاً جب اس کے مزاج پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ لوگوں کی خواہشات اور میلانات کے ساتھ متصادم ہے ۔ وہ بعض لوگوں کی ذاتی مصلحتوں اور مفادات کے ساتھ ٹکراتا ہے ‘ بعض لوگوں کے غرور اور کبریائی پر اس کی زد پڑتی ہے ‘ بعض غاصب جابروں اور زبردستی مسلط ہونے والے حکام بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں ‘ بعض گرے ہوئے طبقات جن میں ترقی اور بلندی کا داعیہ ہی نہیں ہے ‘ وہ اسے مصیبت سمجھتے ہیں ‘ بعض اس قدر کامل ہوں کہ اس کی مشقتیں برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں ‘ بعض ظالم طبقات ہوں جس کے ساتھ عدل لگانہ کھاتا ہو۔ بعض ایسے گم کردہ راہ اور کجرو ہوں کہ انہیں صراط مستقیم اچھا ہی نہ لگتا ہو ‘ اور ان میں سے بعض ایسے بھی موجود ہوں جو منکر کو پسند کرتے ہوں اور معروف کے دشمن ہوں……حالانکہ انسانیت اور امت مسلمہ صرف اس وقت فلاح پاسکتی ہے کہ اس میں خیر غالب ہو ‘ معروف ہو معروف سمجھا جاتا ہو ‘ منکر کو منکر سمجھا جاتا ہو ‘ اور ان تمام امور کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا اقتدار اعلیٰ ہو جس میں خیر غالب ہو اور وہ نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کا فریضہ ادا کرتاہو ۔ اور پھر اپنے اوامر اور نواہی کو منوانے کی قوت بھی رکھتا ہو۔

لہٰذا ایک ایسی جماعت کا قیام ازحد ضروری ہے جس کی بنیاد پر ان دو ستونوں پر ہو ‘ اللہ پر ایمان اور اخوت اسلامی تاکہ وہ اپنی قوت ایمانی ‘ قوت خدا خوفی اور باہم الفت اور محبت اور اتفاق و اتحاد کی قوت کے بل بوتے پر وہ فریضہ ادا کرسکے جس کے لئے اسے اٹھایا گیا ہو ‘ اس لئے کہ جماعت مسلمہ کو جو نصب العین دیا گیا ہے اور جو فریضہ اس پر عائد کیا گیا ہے کہ وہ ان دوخصوصیات کے بغیر اس میں عہدہ برآ نہیں ہوسکتی اور نہ کامیاب وکامران ہوسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ……………” یہی لوگ فلاح پائیں گے ۔ “

غرض اس قسم کی جماعت کا قیام اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے ایک بنیادی ضرورت ہے ۔ یہ اسلامی نظام کی ذاتی ضرورت ہے ۔ یہ جماعت وہ ماحول فراہم کرے گی جس کے اندر اسلامی نظام سانس لے گا ‘ زندہ ہوگا اور ایک حقیقت کے روپ میں نمودار ہوگا ۔ یہ ماحول بھلائی کا ماحول ہوگا ‘ باہم متعاون ومتکافل ہوگا ‘ اور اس میں دعوت الی الخیر کا چرچا ہوگا۔ اس میں بھلائی ‘ نیکی ‘ سچائی ‘ انصاف معروف ہوں گے ۔ شر ‘ رذالت ‘ باطل اور ظلم اس میں منکر تصور ہوں گے ۔ اس ماحول میں بھلائی آسان ہوگی اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوگا۔ اس میں بھلائی پر عمل پیرا ہونے میں اس قدر مشقت نہ کرنا ہوگی جس قدر برائی پر مشقت ہوگی ۔ اس میں حق باطل کے مقابلے میں طاقتور ہوگا۔ اس میں ظلم کے مقابلے میں عدل سے زیادہ نفع ہوگا ‘ اس میں بھلائی کرنے والے کو معاونین بسہولت دستیاب ہوں گے ۔ اور اس میں برائی کا ارتکاب کرنے والے مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا ‘ یہی وجہ ہے کہ ایسی سوسائٹی کا قیام ضروری ہے ‘ جس میں سچائی اور بھلائی بلاجدوجہد نشوونما پاسکے ۔ اس کے لئے اس کا پورا ماحول اور اس کا ہر فرد اس میں معاون ہوگا اور جس میں باطل اور شر کی نشو ونما کی راہ میں بےحد مشکلات اور رکاوٹیں ہوں گی ‘ اس لئے کہ پورا ماحول اس کے لئے ساز گار نہ ہوگا۔

اسلام کا تصور کائنات ، اس کا تصور حیات ‘ اس کا تصور اقتدار ‘ اس کا تصور اعمال ‘ اس کا تصور واقعات ‘ اس کا تصور اشیاء اور افراد تمام دوسرے جاہلی تصورات سے ‘ اپنی اساس اور نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔ اس لئے اسلام کے اس وسیع تصور حیات کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے ایک ماحول ہو ‘ جس میں یہ تصور حیات پھلے پھولے اور اس میں اس کی اپنی اقدار حیات پروان چڑھیں ۔ لہٰذا اسلام کے جاہلی ماحول سے جدا ایک عمدہ ماحول کی ضرورت ہے اور اسے ایک جاہلی معاشرے کے سوا اس کا اپنا معاشرہ درکا رہے ۔

یہ ماحول اور یہ معاشرہ اسلامی تصور حیات کے لئے ہو جس میں یہ تصور زندہ رہے اور یہ ماحول بھی اس کے لئے زندہ ہو ‘ اس ماحول میں یہ تصور پھلے پھولے ‘ اور آزادی کے ساتھ وہ اس ماحول میں سانس لے سکے ‘ اس میں ذاتی ترقی کرسکے ‘ اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ‘ نہ داخلی رکاوٹیں جو اس کی راہ میں مشکلات پیدا کریں اور نہ خارجی رکاوٹیں جو مزاحمت کریں ۔ اور اگر ایسی رکاوٹیں کسی وقت وجود میں آجائیں تو دعوت اسلامی ان کا مقابلہ کرے ‘ اس لئے کہ یہ دعوت الی الخیر ہے ‘ دعوت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ۔ اور جب اس قسم کی کوئی قاہرانہ قوت دعوت اسلامی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالے تو اس معاشرے میں اس کی مدافعت کرنے والے موجود ہوں اور یہ لوگ اسلامی نظام کے محافظین ہوں۔

یہ ماحول اسلامی جماعت کی صورت میں فراہم ہوتا ہے اور یہ جماعت دوبنیادوں پر قائم ہوتی ہے ۔ ایمان باللہ اور اخوت اسلامی ۔ ایمان باللہ اس لئے ضروری ہے تاکہ اس کا تصور کائنات ، تصور حیات ‘ اس کی اقدار ‘ تصور اعمال اور تصور اشخاص واشیاء میں مطابقت ہو۔ یہ تمام تصورات ایک ہی پیمانے کے مطابق ہوں اور ایک ہی منبع سے ماخوذ ہوں ‘ انہی کے مطابق زندگی کے تمام مسائل حل کئے جائیں اور پوری زندگی کے فیصلے اللہ کی طرف سے آئی ہوئی شریعت کے مطابق ہوں ۔ اور وہ جماعت محبت کے ساتھ اس قیادت کی پیروی کرے جو اسلامی نظام حیات کے مطابق قائم ہو ۔ وہ اسلامی اخوت پر قائم ہو۔ اس کی تشکیل محبت اور باہم تعاون وتکافل کے اصولوں پر ہو ‘ یہ ایسے اصول ہیں جن کے سایہ میں خود غرضی اور لالچ ختم ہوجاتی ہے اور ایثار اور قربانی کے جذبات دوچند ہوجاتے ہیں ‘ لوگ بڑی سہولت اور آزادی سے اور بڑی گرمجوشی سے ایثار کرتے ہیں اور نہایت ہی اطمینان ‘ خوشی اور اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔

غرض مدینہ طیبہ میں پہلی اسلامی جماعت انہی دواصولوں پر قائم ہوئی تھی ‘ اس کا ایمان باللہ نہایت ہی پختہ تھا جو معرفت الٰہی پر مبنی تھا۔ معرفت الٰہی کی وجہ سے صفات باری کا پرتو ان کے ضمیروں پر پڑگیا ‘ خدا خوفی ‘ خدا کی نگرانی کا شعور ‘ مسلسل بیداری ‘ ذات باری کا احساس اس جماعت کے اندر اس ھد تک پہنچا ہوا تھا کہ جس کی نظیر تاریخ انسانی میں بڑی نادر ہے ۔ اور معرفت کردگار کے ساتھ ساتھ خوبصورت اور میٹھی محبت کے پیکر تھے ۔ معاشی لحاظ سے باہم معاون متکافل اور گہری اور سچی ہمدردی رکھتے تھے ۔ اور وہ اس میدان میں اس قدر اونچے مقام تک پہنچے ہوئے تھے کہ اگر انہوں نے یہ معیار عملاً پیش نہ کیا ہوتا تو وہ محض خواب ہی خواب ہوتا ۔ غرض مہاجرین اور انصار کے درمیان برادری اور مواخات کا قصہ تو ایک حقیقت تھا ‘ لیکن وہ اس قدر ممتاز اور بلند معیار کا تھا کہ آج بھی وہ محض افسانہ نظر آتا ہے ‘ حالانکہ وہ حقیقت تھی ۔ اور وہ قصہ اس سرزمین پر بطور واقعہ پیش آیا تھا۔ اگرچہ وہ محیر العقول اور افسانہ نظر آتا تھا ۔ غرض اس قسم کے ایمان اور اس قسم کی اخوت اور بھائی چارے پر ہر دور میں اسلامی نظام قائم ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ سیاق کلام میں مکرر ‘ جماعت مسلمہ کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ تفرقے اور بےجا اختلاف سے باز رہیں ۔ ان سے پہلے جن لوگوں کو اس امانت کے اٹھانے کے لئے منتخب کیا گیا تھا ‘ اور جنہوں نے تفرقہ بازی کی تھی اور انجام کار وہ جس طرح تباہ وبرباد ہوئے تھے ‘ اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ اعزاز چھین لیا تھا اور جماعت مسلمہ کے سپرد کردیا تھا ‘ اس لئے وہ باہم جڑے ہوئے تھے ۔ نیز ان لوگوں کا جو برا انجام قیامت میں ہونے والا ہے وہ مستزاد ہے ‘ کہ جس دن کچھ چہرے سیاہ ہوں گے اور کچھ سفید ہوں گے اور یہ لوگ سیاہ چہروں والے ہوں گے ۔