Stai leggendo un tafsir per il gruppo di versi 37:139 a 37:148
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت یونس علیہ السلام کا زمانہ آٹھویں صدی قبل مسیح ہے۔ وہ عراق کے قدیم شہر نینویٰ (Nineveh) میں رسول بنا کر بھیجے گئے۔ ایک مدت تک تبلیغ کے بعد آپ نے اندازہ کیا کہ قوم ایمان لانے والی نہیں ہے۔ آپ نے شہر چھوڑ دیا۔ آگے جانے کےلیے آپ غالباً دجلہ کے کنارے ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی زیادہ بھری ہوئی تھی۔ درمیان میں پہنچ کر ڈوبنے کا اندیشہ ہوا۔ چنانچہ کشتی کو ہلکا کرنے کےلیے قرعہ ڈالا گیا کہ جس کا نام نکلے اس کو دریا میں پھینک دیا جائے۔ قرعہ حضرت یونس کے نام نکلا اور کشتی والوں نے آپ کو دریا میں ڈال دیا۔ اس وقت خداکے حکم سے ایک بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا اور آپ کو لے جاکر دریا کے کنارے خشکی میں ڈال دیا۔ حضرت یونس نے اپنی قوم کو قبل ازوقت چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ اللہ کا حکم ہوا کہ آپ دوبارہ اپنی قوم کی طرف واپس جائیں۔ آپ نے دوبارہ آکر تبلیغ کی تو شہر کے تمام سوا لاکھ باشندے مومن بن گئے۔

اس واقعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ داعی کےلیے صبر انتہائی حد تک ضروری ہے۔ حتی کہ اس وقت بھی جب کہ لوگوں کا رویہ بظاہر مایوسی پیداکرنے والا بن جائے۔