من كان يريد العزة فلله العزة جميعا اليه يصعد الكلم الطيب والعمل الصالح يرفعه والذين يمكرون السييات لهم عذاب شديد ومكر اولايك هو يبور ١٠
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّـٰلِحُ يَرْفَعُهُۥ ۚ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ لَهُمْ عَذَابٌۭ شَدِيدٌۭ ۖ وَمَكْرُ أُو۟لَـٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ ١٠
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

من کان یرید العزۃ ۔۔۔۔۔ اولئک ھو یبور (10) ” “۔

شاید مردہ زمین میں اٹھنے والی نباتاتی زندگی اور کلمہ طیبہ اور عمل صالح کے درمیان ربط یہ ہے کہ دونوں میں پاکیزہ زندگی اور قدر مشرک ہے۔ نباتات کی بھی طیب زندگی ہے اور عمل صالح اور کلمہ طیبہ بھی پاک زندگی ہے۔ اور ان کے درمیان ربط اور تعلق وہی ہے جس کی طرف سورة ابراہیم کی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی کائنات کے مزاج اور اسلامی زندگی کے مزاج کی یکسائی سورة ابراہیم میں فرمایا :

الم ترکیف ضرب اللہ ۔۔۔۔۔ مالھا من قرار (24 – 26) ” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ اس سے سبق لیں اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھنکا جاتا ہے۔ اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے “۔ یہ ایک حقیقی مشابہت ہے جو ایک پاک کلمہ اور پاک درخت کے درمیان پائی جاتی ہے ۔ دونوں کے اندر حیات اور برہنہ موجود ہے۔ ایک کلمہ اور نظریہ بھی نشوونما پاتا ہے اور بار آور ہوتا ہے اور ایک درخت بھی نشوونما پاتا ہے اور پھل دیتا ہے۔ دونوں کی ایک ہی مثال ہے۔

مشرکین اس لیے شرک کرتے تھے کہ مکہ کے اندر ان کا جو دینی مقام تھا ، وہ برقرار رہے۔ محض عقیدے اور نظریہ کی وجہ سے وہ دوسرے قبائل سے برتر تسلیم کیے جاتے تھے۔ پھر ان کو مالی مفادات بھی حاصل تھے۔ مثلاً ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اس وجہ سے وہ پرشوکت اور پر قوت تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے۔

ان نتبع الھدی معک نتخطف من ارضنا ” اگر تمہارے ساتھ ہدایت کے تابع ہوجائیں تو ہمیں ہماری زمین سے اچک لیا جائے گا۔ لہٰذا اللہ فرماتے ہیں :

من کان یرید العزۃ فللہ العزۃ جمیعا (35: 10) ” جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے “۔ یہ حقیقت جب کسی کے دل میں بیٹھ جائے تو اس انسان کی قدریں اور حسن و قبح کے اصول بدل جاتے ہیں۔ ان قدروں کے حصول کے ذرائع اور منصوبے ہی بدل جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عزت سب کی سب اللہ کیلئے ہے اور عزت کا کوئی حصہ بھی اللہ کے سوا کسی کا نہیں ہے۔ اگر کوئی عزت چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ہاں عزت طلب کرے گا تو وہاں لازما جائے گا اور اسے عزت ضرور ملے گی اور اگر کسی اور دروازے پر عزت تلاش کرے گا تو خوار ہوگا اس لیے کہ ۔ فان العزۃ فللہ جمیعا ” عزت تو سب کی سب اللہ کے ہاں ہے “۔ قریش اپنے بت پرستانہ عقیدے کی وجہ سے لوگوں سے عزت چاہتے تھے۔ وہ لوگوں کے علی الرغم ہدایت قبول کرنے سے ڈرتے تھے حالانکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ جو دعوت دیتے ہیں وہ ہدایت ہے۔ وہ اس لیے ڈرتے تھے کہ ان کے مقام و مرتبہ میں فرق نہ آجائے۔ جن عوام اور قبائل سے وہ ڈرتے تھے ان کے پاس عزت کا کوئی سرچشمہ ہی نہ تھا۔ وہ عزت کے مالک ہی نہ تھے۔ عزت کا مالک تو اللہ ہے۔

فان العزۃ فللہ جمیعا ” بیشک عزت اللہ کی ہے “۔ اگر قریش قوی تھے تو قوت کا مصدر بھی اللہ ہی ہے۔ لہٰذا ان کا فرض ہے کہ وہ عزت اور قوت اور شوکت اپنے اصلی مصدر سے لیں ، لوگوں سے نہ لیں۔ یہ لوگ تو خود عزت کے طالب ، محتاج اور کمزور ہیں۔ اسلامی نظریہ حیات کے حقائق میں سے یہ اولین حقیقت ہے ۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ اگر کسی کے ذہن میں بیٹھ جائے تو اس کی قدریں بدل کر رکھ دیتی ہے۔ حسن و قبح کے پیمانے بدل دیتی ہے۔ اقوام کے فیصلے اور ان کی تقدیریں بدل دیتی ہے۔ ان کا منہاج زندگی اور طرز عمل بدل جاتا ہے۔ وہ اپنے اسباب و وسائل بدل دیتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم صرف اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیں اور پھر پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں۔ پھر ہم دنیا میں نہایت معزز ، پروقار اور مستقل مقام و مرتبہ پائیں گے۔ اقوام عالم میں ہمارا وزن ہوگا۔ یہی ہے عزت و وقار کا طریقہ ۔ ایک مسلمان کیلئے اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔

جب کسی دل میں یہ حقیقت بیٹھ جاتی ہے تو وہ دل پھر کسی جبار وقہار کے سامنے نہیں جھکتا۔ وہ کسی تندوتیز طوفان سے بھی نہیں ڈرتا۔ کوئی عظیم حادثہ بھی اس کے عزائم کو ختم نہیں کرسکتا۔ کوئی صورت حال اور کوئی حکومت اسے متاثر نہیں کرسکتی۔ کوئی مملکت اور کوئی مصلحت اسے متاثر نہیں کرسکتی۔ اس کرہ ارض کی قوتوں میں سے کوئی قوت اسے نہیں جھکا سکتی اور کیوں ایسا ہو سکے ؟ جب کہ ہر قسم کی قوت کا سرچشمہ اللہ کے پاس ہے اور اس کے سوا کسی کے پاس کوئی قوت نہیں ہے۔

یہ وجہ ہے کہ یہاں کلمہ طیبہ اور عمل صالح کا ذکر ہوتا ہے۔

الیہ یصعد۔۔۔۔۔ الصالح یرفعہ (35: 10) ” اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ پاکیزہ قول ہے اور عمل صالح اس کو اوپر اٹھاتا ہے “۔ اس عظیم حقیقت کے ذکر کے بعد اس تبصرے کا ایک خاص مفہوم اور اشارہ ہے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ اگر کوئی عزت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے ذرائع کیا ہیں ؟ وہ ہیں قول طیب اور عمل صالح۔ قول طیب سیدھا اللہ کی طرف بلند ہوتا ہے اور عمل صالح اللہ کی طرف اٹھایا جاتا ہے۔ یوں اللہ عمل صالح کو مکرم بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قول طیب اور عمل صالح کے مالک ہمیشہ سربلند اور معزز اور مکرم ہوتے ہیں اور ان کو عزت عطا ہوتی ہے۔

صحیح عزت وہ ہوتی ہے جو قبل اس کے کہ اس دنیا میں وہ نمودار ہو یا اس کے آثار نمودار ہوں ایک شخص کے قلب میں بیٹھی ہے۔ جب یہ حقیقت کسی دل میں بیٹھ جائے تو ایسا شخص ذات اور سرنگونی کے تمام اسباب کے دائرے سے باہر نکل آتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جب کسی کے دل میں بیٹھ جائے تو سب سے پہلے تو وہ خود اپنے نفس امارہ پر قابو پا لیتا ہے۔ یہ سب سے پہلے اپنی سفلی خواہشات کو کنڑول کرلیتا ہے۔ جب کوئی انسان ان انسانی کمزوریوں پر قابو پالے تو پھر اس کو ذلیل کرنے اور تابع کرنے کا کوئی سبب ہی نہیں رہتا۔ لوگوں کو جو چیز ڈلیل کرکے رکھ دیتی ہے وہ ان کی خواہشات اور رغبات ہوتی ہیں ۔ ڈر اور لالچ ہوتا ہے اور جو شخص ان کمزوریوں پر غالب آجاتے وہ گویا تمام انسانوں پر غالب آگیا۔ اور وہ یہ حقیقی عزت ہے جس کے ذریعے انسان سربلند ، قوی اور نڈر ہوجاتا ہے۔

عزت یہ نہیں ہے کہ انسان حق کے ساتھ معاند ہو ، خود سر ہو اور باغی ہو اور باطل کو بلند کرنے کی سعی کرتا ہو نہ قوت اس بات کا نام ہے کہ کوئی فاسق و فاجر ہوجائے ، اللہ کا باغی اور نافرمان ہوجائے اور نہایت ہی جبر اور اصرار کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کرے اور نہ قوت اس بات کا نام ہے کہ اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کوئی آزادانہ شہوت رانی اور بےحیائی کا رویہ اختیار کرے۔ نہ قوت یہ ہے کہ کوئی بغیر کسی اصول اور ضابطے کے طاقت کا استعمال کرے اور انصاف اور اصلاح کے مقاصد کے بغیر دھکڑ شروع کر دے۔ ہرگز نہیں ، بلکہ قوت یہ ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پالے۔ انسان ذلت اور غلامی کا مقابلہ کرے ، اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے نہ جھکے اور صرف اللہ ہی کے سامنے عاجزی اور خشوع کرے ، اللہ کا خوف کرے ، اس سے ڈرے ، خوشی اور غم دونوں حالتوں میں اللہ سے ڈرے۔ جب کوئی ایسی قوت حاصل کرلے تو پھر اس کی پیشانی بلند ہوگی اور ایسا انسان ہر اس بات کا مقابلہ کرسکے گا جسے اس کا ضمیر پسند نہ کرتا ہو۔ اور ایسا انسان اللہ کی رضا کے سوا کسی اور چیز کو خاطر میں نہ لائے گا۔ یہ ہے کلمہ طیبہ اور عمل صالح کا مقام۔ عزت کے حوالے سے اور سیاق کلام میں بات کی مناسبت اور ربط کے حوالے سے۔ اس کے بعد صفحہ بالمقابل کی تکمیل یوں کی جاتی ہے۔

والذین یمکرون ۔۔۔۔۔۔ ھو یبور (35: 10) ” رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے “۔ یمکرون کے اندر تدبیر کے معنی بھی شامل ہیں لیکن یہاں مکر بمعنی سازش اور چال اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس کا اکثر استعمال برے معنوں ہی میں ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے عذاب شدید ہے اور یہ عذاب تو ان کے لیے مقدر ہے کہ ان کی یہ چال بازیاں غارت جائیں گی ، نہ قائم رہیں گی اور نہ ان کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔ یہ ” بور “ کے ہے اور ” بور “ اور ” بوران “ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ آیت سابقہ میں چونکہ اشارہ زمین کی آبادی اور پھل دینے کے معنی کی طرف تھا ، یہاں اس کے بالمقابل بوران کا لفظ لایا گیا ہے جس میں پھل ضائع ہوجانے کے معنی ہیں۔

جو لوگ یہ چال بازیاں کرتے ہیں وہ جھوٹی عزت حاصل کرنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ سوسائٹی میں عام لوگوں کی نظروں میں ، وہ معزز ہوں۔ بظاہر وہ بڑے لوگ اور صاحب عزت ہوں اور قوت والے نظر آئیں۔ یہاں عزت ذرا وسیع مفہوم میں ہے لیکن ہر بری تدبیر جس میں قول طیب نہ ہو اور عمل صالح نہ ہو ، اس کا مدبر کبھی بھی معزز ، پروقار اور صاحب قوت نہیں ہوتا۔ اگرچہ بعض اوقات وہ ایک مختصر وقت کے لیے اپنا عرب جما لیتا ہے لیکن آخر کار وہ ہلاکت کی طرف جاتا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اور اللہ اپنے وعدوں سے کبھی الٹ نہیں کرتا۔ ہاں وہ ہر مکار کو قدرت مہلت ضرور دیتا ہے لیکن جب وقت آتا ہے تو یہ

تمام مکاریاں غارت چلی جاتی ہیں۔

اب انسان کی پہلی زندگی اور پہلی پیدائش کا ایک منظر ، اس سے قبل کے منظر میں بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک خشک زمین کو پانی کے ذریعہ کس طرح زندہ اور سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے۔ انسان کی پیدائش میں اس کے زمانہ حمل مادر اور پھر اس کی طویل عمر یا قصیر عمل۔ یہ سب چیزیں اللہ کے علم اور منصوبے کے مطابق ہوتی ہیں۔