لا يواخذكم الله باللغو في ايمانكم ولاكن يواخذكم بما كسبت قلوبكم والله غفور حليم ٢٢٥
لَّا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغْوِ فِىٓ أَيْمَـٰنِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌۭ ٢٢٥
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اللہ تعالیٰ رؤف ورحیم ہے ، اس لئے اس نے کفارہ اس قسم پر عائد کیا ہے جو قصد و ارادہ سے ہو ، جس میں قسم کھانے والا قصداً قسم کھالے ۔ اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ اس نے جس چیز پر قسم کھائی ہے وہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا ، لیکن عام طور پر لوگ بلا ارادہ اور بلا قصد جو قسمیں کھالیتے ہیں ان پر کفارہ عائد نہیں کیا گیا۔

لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ” جو بےمعنی قسمیں تم بلاارادہ کھالیا کرتے ہو ، ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ، ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا ۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا ہے۔ “

ابوداؤد نے اپنی سند سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم میں لغو یہ ہے کہ آدمی گھر میں کہے ہرگز نہیں اللہ کی قسم ، یا کہے ہاں اللہ کی قسم ۔ ابن جریر نے عروہ کے واسطہ سے اس روایت کو حضرت عائشہ ؓ سے موقوف نقل کیا ، فرماتی ہیں جن بےمعنی قسموں پر اللہ کی گرفت نہیں ہے وہ یہ ہیں ، کہ کوئی کہے ہرگز نہیں اللہ کی قسم یا کہے ہاں اللہ کی قسم ، حسن بن حسن سے ایک مرسل حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ ایک گروہ پر سے گزرے جو تیر اندازی کررہے تھے ۔ رسول ﷺ کے ساتھ ایک صحابی بھی تھے ۔ ایک شخص ان میں سے اٹھا اور چلایا اللہ کی قسم میرا تیر نشانے پر لگ گیا اور تمہارا نشانہ ٹھیک نہیں لگا ، اللہ کی قسم ، رسول ﷺ کے ساتھ جو صحابی جارہا تھا اس نے کہا اللہ کے رسول ﷺ ، یہ شخص تو اپنی قسم میں حانث ہوگیا۔ اس پر رسول ﷺ نے فرمایا ، ہرگز نہیں ، تیر اندازی کا مقابلہ کرنے والوں کی قسمیں لغ وہیں ۔ بےمعنی ہیں ان میں نہ کفارہ ہے اور نہ ہی کوئی عذاب ہے۔

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں ، لغو قسم یہ ہے کہ کوئی شخص غصے کی حالت میں قسم کھابیٹھے ۔ نیز ان سے یہ روایت ہے کہ یمین لغو یہ ہے کہ تم اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دو ۔ اس میں تم پر کوئی کفارہ نہیں ہے ۔

حضرت سعید ابن المسیب سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ دو انصار بھائیوں کے درمیان میراث کا تنازعہ تھا ، ایک نے دوسرے سے کہا کہ وہ اسے اس کا حصہ دے دے ، اس پر اس نے قسم کھالی کہ اگر تم نے دوبارہ مجھ سے اپنا حصہ طلب کیا تو میرا تمام مال خانہ کعبہ کے لئے وقف ہوا ، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کعبہ غریب نہیں ہے ۔ کعبہ کو تیرے مال کی ضرورت نہیں ہے ، اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو اور اپنے بھائی سے بات کرو ۔ میں نے رسول ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ کی معصیت میں تم جو قسم کھاؤ وہ کوئی قسم نہیں ہے اور نہ وہ کوئی نذر ہے ۔ نہ صلہ رحمہ قطع کرنے کی کوئی قسم واجب ہے ۔ نہ اس چیز کی قسم جس کے تم مالک ہو۔

ان روایات سے جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قسم میں اگر اس کام کے کرنے اور چھوڑنے کی نیت نہ ہو ، جس پر قسم کھائی گئی ہے تو یہ قسم بےمعنی ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ۔ وہی قسم ، قسم کہلائے گی کہ قسم کھانے والا کسی بات کے کرنے یا کسی کام سے رکنے کا پختہ ارادہ کرے جس پر وہ قسم کھارہا ہے ۔ ایسی قسم اگر توڑ دی جائے تو اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ اور اگر اس قسم کی قسم کسی اچھے کام سے رکنے کے لئے ہو یا کسی برے کام یا برے فعل کے ارتکاب کے لئے ہو ، تو ایسی قسم کا توڑنا لازمی ہے ۔ رہا وہ شخص جو کسی ایسے امر پر قسم کھائے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ جھوٹا ہے تو بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کا کوئی کفارہ نہیں ہے ، نہ کسی کے کفارے سے اس گناہ کی تلافی ممکن ہے ۔

امام مالک (رح) مؤطا میں فرماتے ہیں ، اس سلسلے میں سب سے اچھی جو بات میں نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ یمین لغو وہ ہے کہ انسان کسی بات پر قسم کھائے اور جان رہا ہو کہ وہ جھوٹا ہے ، گناہ گار ہے ، اس طرح کرنے سے وہ کسی کو خوش کررہا ہو ، یا کسی کا حق مارنا چاہتا ہو ، یہ عظیم گناہ ہے اور کفارہ سے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔

جس قسم کے توڑنے میں خیر ہو ، بھلائی ہو ، اس کے حکم کے آخر میں فرمایا جاتا ہے وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” اللہ سننے والا اور علم رکھنے والا ہے۔ “ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ اسے سنتا ہے لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ خیر کس میں ہے اس لئے وہ یہ حکم دیتا ہے۔

اور لغو وبے معنی قسم اور سچی قسم کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ ” غفور رحیم “ معاف کرنے والا اور رحیم ہے کہ وہ بندوں کے ہر فعل پر مواخذہ نہیں کرتا ۔ جب ان کے منہ سے غلطی سے جو نکل جائے وہ اس پر مواخذہ نہیں کرتا ۔ وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کردیتا ہے ۔ بشرطیکہ بندہ اس کی طرف لوٹ آئے ۔ ان دونوں تبصروں اور نتائج سے قسم کے یہ معاملات سب کے سب اللہ سے جڑجاتے ہیں اور ایک مسلمان کا دل ہر قول میں اور ہر فعل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔