Stai leggendo un tafsir per il gruppo di versi 23:31 a 23:40
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

ثم انشانا ۔۔۔۔ للقوم الطلمین (آیات نمبر 31 تا 41)

اس سورة میں قصص نہ محض قصہ گوئی کے لیے لائے گئے ہیں اور نہ ان کی تفصیلات دی گئی ہیں ، بلکہ یہاں مقصد یہ بتا تا ہے کہ تمام پغمبروں نے ایک ہی دعوت پیش کی اور تمام رسولون کی اقوام نے ان کے ساتھ ایک ہی جیسا سلوک کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بات کی ابتداء حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے سے کی گئی اور انجام حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پر ہوا۔ جبکہ خطاب رسول آخر زمان کو تھا۔ رسولوں کے طویل سلسلے کے نام یہاں نہیں دیئے گئے کیونکہ تمام رسولوں کا معاملہ دراصل ایک ہی جیسا تھا ، مقصد یہ تھا کہ ان کا کلمہ ایک ہی تھا ، ان کی دعوت ایک تھی اور اس کے ساتھ عوام کا سلوک بھی ایک ہی تھا ، یہی تھا اس سورة کا مقصد۔

ثم انشانا من بعدھم قرنا اخرین (23 : 31) ” اس کے بعد ہم نے دوسرے دور کی قوم اٹھائی “۔ یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ کہ قوم کون تھی۔ راجح قول یہ ہے کہ یہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم تھی۔

فارسلنا تتقون (23 : 32) ” پھر ان میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا ( جس نے انہیں دعوت دی ) کہ صرف اللہ کی بندگی کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ “ یہ بھی وہی دعوت ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے پیش کی تھی اور الفاظ بھی ایک ہی ہیں۔ حلان کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان اور تھی اور زیر بحث رسول کی زبان اور تھی کیونکہ ان دونوں رسولون کے درمیان ــ” قروم “ کا فرق تھا۔

اس قوم کا جواب کیا تھا ؟ وہی جواب یعنی انکار و قال الملا من قومه الذين کفروا و کذبوا بلقاء الاخرة و اترفنهم في الحيوة الدنيا ما هذا الا بشر مثلکم ياکل مما تاکلون منه و يشرب مما تشربون (23 ؛ 33) ولئن لخسرون (23 : 34) اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا ، جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودہ کر رکھا تھا وہ کہنے لگے ــ” یہ شخص کچھ نہیں ہے ، مگر ایک بشر تم ہی جیسا ، جو کچھ تم کھاتے ہو ، یہی وہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو ، وہی یہ پیتا ہے۔ اب اگر تم اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت قبول کرلی تو تم گھاٹے ہی میں رہے “۔

یہ وہی اعتراض ہے جو تمام امتوں نے پیش کیا کہ یہ رسول تو تم جیسا بشر ہے۔ یہ اعتراض اس لیے پیدا ہوا کہ کسی بھی معاشرے کے کھانے پیتے لوگوں کا تعلق خدا سے نہیں رہتا ، اس لیے وہ نہیں سمجھ سکتے کہ ایک انسان کا تعلق خدا سے کیسے قائم ہو سکتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ معاشی خوشحالی انسان کی فطرت کو بگاڑ دیتی ہے دماغ موٹا کردیتی ہے۔ دل کے دروازے بند کردیتی ہے ۔ اور عیاش لوگوں کے دل پتھر بن جاتے ہیں۔ ان کے اندر احساس نہیں رہتا۔ اس لیے وہ کسی بات سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ مان کردیتے ہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ خوشحال لوگ ہمیشہ تحریک اسلامی کی مخالفت کرتے ہیں اور اس لیے اسلام عیاشی کی مخالفت کرتا ہے اور اپنا اجتماعی نظام اس طرح تشکیل دیتا ہے جس میں مترفین کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی ، کیونکہ یہ لوگ معاشرے کی سراند ہورتے ہیں ، پورے ماحول کو متفعن کردیتے ہیں اور معاشرے کو اس قدر گندا کردیتے ہیں کہ اس کے اندر گندے کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں اور ایسے معاشرے کو بالاخر یہ گندے کیڑے چاٹ جاتے ہیں ۔

اس پر مستزاد یہ کہ وہ بعث بعد الموت کے قائل نہیں تھے وہ کہتے تھے کہ موت کے بعد اور مٹی ہوجانے کے بعد انسانوں کو کس طرح اٹھایا جائے گا۔ یہ تو بعید از امکان ہے اور جس بات کی اطلاع یہ رسول دے رہا ہے ، یہ عجیب ہے۔

ابعد مخرجون (23 : 35) ھیات توعدون (23 : 36) ان ھی بمبعوثین (23 : 37) ” یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مرکر مٹی ہو جائو گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائو گے اس وقت تم (قبروں سے) نکالے جائو گے ؟ بعید ، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جارہا ہے ، زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہر گز اٹھائے جانے والے نہیں ہیں ۔ یہ شخص خدا کے نام پر محض جھوٹ گھڑرہا ہے اور ہم کبھی اس کے ماننے وانے نہیں ہیں “۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم سوچ رکھنے والے لوگ آخرت کی زندگی کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ زندگی کے گہرے حقائق پر نہ ہو انہوں نے غور کیا ہے اور نہ اس کے پچیدہ نظام کی کوشش کی ہے اور نہ یہ لوگ ایک اعلیٰ اور ارفع زندگی کی ترجیحات کو سمجھتے ہیں ۔ زندگی کے یہ اعلیٰ مقاصد ہے کہ اس دنیا میں پورے نہیں ہوسکتے۔ اس دنیا میں نہ بھلائی کو اس پوری جزا ملتی ہے اور نہ شر کو اس کی پور سز املتی ہے ۔ یہ جزا و سزا آخرت میں مکمل طور پر ملیں گی۔ آخرت میں اہل ایمان اعلیٰ ترین معیاری زندگی تک پہنچیں گے جہاں نہ خوف ہوگا اور نہ تھکاوٹ ہوگی ۔ اسی طرح اہل کفر اور پسمانگی اختیار کرنے والے بھی نہایت ہی ذلیل ترین زندگی تک پہنچیں گے جس میں ان کی انسانیت تباہ ہوگی اور وہ وہاں لکڑیوں کی طرح جلتے اور جلائے جاتے رہیں گے ۔ نہ ان کے لیے اس سزا میں کمی ہوگی اور نہ اہل ایمان کے لیے جزاء میں کمی ہوگی ۔

اس قسم کے مترفین ان اعلیٰ مقاصد اور ایسے گہرے معانی کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ تعجب ہے کہ یہ لوگ خود اپنی اس موجودہ زندگی کے مختلف ادوار اور مراحل پر غور نہیں کرتے جو ابھی ابھی اسی سورة میں ان کے سامنے رکھے گئے ہیں ۔ یہ اس عجیب و غریب خود کار نظام تخلیق سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے۔ اسی نظام جیسے ایک خود کار نظام کے ذریعے اللہ مٹی اور ہڈیوں کے پنجر کو پھر زندہ کردے گا۔ اس لیے ان کو اس رسول کی اس اطلاع پر تعجب ہوتا ہے کہ ان کو قبروں سے نکا لا جائے گا۔ اب وہ نہایت ہی کبرو غرور سے اپنی حکمت و دانائی کا اظہار کرتے ہیں کہ یہی زندگی اور یہی موت ہے۔ ایک نسل مرتی ہے اور دوسری نسل زندہ رہتی ہے ۔ جو مر گئے اور مٹی بن گئے اور ہڈیاں رہ گئے تو یہ بات بعید از امکان ہے وہ دوبارہ واپس ہوجائیں گے۔ یہ اطلاع جو یہ رسول دے رہا یہ اور ہم سے دوبارہ اٹھائے جانے کا وعدہ کر رہا ہے بعید از امکان ہے۔

یہ لوگ اپنی اس جہالت پر ہی نیں رکتے کہ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا بلکہ یہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے رسول پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ رسول اپنی جانب سے اللہ پر افتراء باندھتا ہے حالانکہ وہ اللہ کو جانتے ہی نہیں ۔ وہ صرف اس وقت اللہ کا نام لے رہے ہیں اور یہ نام بھی اس لیے لے رہے ہیں کہ رسول پر الزام لگائیں۔

ان ھو بمومنین (23 : 38) ” یہ شخص خدا کے نام پر جھوٹ گھڑتا رہا ہے اور ہم کبھی اس کی بات ماننے واہے نہیں ہیں “ ایسے حالات میں یہ رسول ﷺ اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہے کہ وہ اپنے رب سے نصرت طلب کرے جس طرح اس سے قبل حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے نصرت طلب کی تھی۔ حضرت نوح کی دعائے نصرت بھی یہی تھی۔

قال رب کذبون (23 : 39) رسول نے کہا پروردگار ان لوگوں نے میری جو تکذیب کی ہے اس پر اب تو میری نصرت فرما “۔ اللہ کی طرف سے دعا قبول ہوتی ہے۔ اس قوم کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی بھلائی باقی نہیں رہی ہے یہ لوگ غفلت ، تکذیب اور عناد میں مبتلا ہیں۔

قالا عما غثاء (23 : 30) ” جواب میں ارشاد ہوا ، قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے “۔ لیکن اس وقت ان کی یہ ندامت ان کی کوئی فائدہ نے دے گی۔

فاخذتھم غثاء (23 : 31) ” آخر ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک ہنگامہ عظیم نے ان کو آلیا اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا “۔ غثاء اس کو ڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جس سیلاب بہا کر پھینک دیتا ہے اور اس میں کوئی چیز کام کی نہیں ہوتی۔ یہ کچرا کسی کام کا نہیں ہوتا اور ہر قسم کی گندگی اور بیکار چیزوں کا ڈھیر ہوتا ہے۔ یہ لوگ چونکہ ان انسانی اوصاف سے دستبردار ہوگئے تھے جن کی وجہ سے وہ انسان بکرم تھے ، وہ اپنے وجود دنیاوی اور وجود اخروی کی حکمت کو نہیں پا رہے تھے اور انہوں نے اپنے خالق کے ساتھ تمام روابط کاٹ دیئے تھے ، وہ اپنے وجود دنیاوی اور وجود اخروی کی حکمت کو نہیں پار ہے تھے اور انہوں نے اپنے خالق کے ساتھ تمام روابط کاٹ دیئے تھے اس لے ان میں کوئی ایسی بات باقی نہیں تھی جن کی وجہ سے ان کی تکریم ہوتی اور اس دنیا میں وہ باقی رہتے۔ لہذا وہ سیلاب کے کوڑے کرکٹ کی طرح بہادیئے ہیں۔ اس طرح کردیئے گئے کہ کوئی ان کو پوچھنے والا نہ تھا۔ یہ قرآن کا منفرد انداز کلام ہے جو کسی حقیقت کا اظہار نہایت ہی وقت کے ساتھ کرتا ہے ۔

ان لوگوں کے مزید توہین کے لیے اللہ کی جانب سے ان کی ملک بدری کا حال بتانے کے لیے یہ فقرہ کافی ہے کہ یہ اللہ کی رحمت سے دور کردیئے گئے ۔

فبعد اللقوم الظلمین (23 : 31) ” دور ہو ظالم قوم ! “ زندگی سے دور ، ذکر خیر سے بھی دور ، عالم واقعہ بھی دور اور عالم ضمیر سے بھی دور

اس کے بعد سیاق کلام مضمون کو آگے بڑھاتا ہے ۔ منظر پر اقوام آتی ہیں اور جاتی ہیں۔