Stai leggendo un tafsir per il gruppo di versi 11:32 a 11:34
قالوا يا نوح قد جادلتنا فاكثرت جدالنا فاتنا بما تعدنا ان كنت من الصادقين ٣٢ قال انما ياتيكم به الله ان شاء وما انتم بمعجزين ٣٣ ولا ينفعكم نصحي ان اردت ان انصح لكم ان كان الله يريد ان يغويكم هو ربكم واليه ترجعون ٣٤
قَالُوا۟ يَـٰنُوحُ قَدْ جَـٰدَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَٰلَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ ٣٢ قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ ٱللَّهُ إِن شَآءَ وَمَآ أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ٣٣ وَلَا يَنفَعُكُمْ نُصْحِىٓ إِنْ أَرَدتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ ٱللَّهُ يُرِيدُ أَن يُغْوِيَكُمْ ۚ هُوَ رَبُّكُمْ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ٣٤
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت نوح نے اپنی قوم سے جدال (جھگڑا اور مناظرہ) نہیں کیا تھا۔ وہ سنجیدہ انداز میں اپنا صالح پیغام ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔ مگر آپ کی سنجیدہ دعوت آپ کی قوم کو الٹی صورت میں نظر آرہی تھی۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جب ا س کی اپنی ذات زد میں آرہی ہو تو وہ سنجیدگی کھو دیتاہے۔ ایسی بات کو وہ دلیل اور ثبوت کے اعتبار سے نہیں دیکھتا۔ وہ بغیر سوچے سمجھے اس کو رد کردیتا ہے۔ داعی حق کی ٹھوس دلیل بھی اس کو بحث وجدال معلوم ہونے لگتی ہے۔

’’بہت جدال کرچکے‘‘ کا جملہ دراصل یہ بتانے کے لیے نہیں ہے کہ نوح نے کیا کہا تھا۔ بلکہ وہ اس کو بتاتا ہے کہ سننے والوں نے آپ کی بات کو کیا درجہ دیا تھا۔

اسی طرح مخالفینِ نوح کا عذاب کو طلب کرنا حقیقۃً عذاب کو طلب کرنا نہیں تھا۔ بلکہ حضرت نوح کا مذاق اڑانا تھاکہ دیکھو یہ شخص ایسی بات کہہ رہا ہے جو کبھی ہونے والی نہیں۔ وہ اپنی پوزیشن کو اتنا مستحکم سمجھتے تھے جس میں ان کے خیال کے مطابق کہیں سے عذاب آنے کی گنجائش نہ تھی۔ اسی ذہن کے تحت انھوں نے کہا کہ ہمارے انکار کی سزا میں جس عذاب کی تم خبر دیتے رہے ہو وہ عذاب لاؤ۔ اور چونکہ ان کے نزدیک ایساعذاب کبھی آنے والا نہ تھا اس لیے اس سے ان كي مراد يه تھي کہ ہم حق پر ہیں اور تم نا حق پر۔

حضرت نوح نے جواب دیا کہ تم معاملہ کو میری نسبت سے دیکھ رہے ہو اور چوں کہ میں کمزور ہوں اس لیے تمھاری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ عذاب کبھی تمھارے اوپر آسکتاہے۔ اگر معاملہ کو خدا کی نسبت سے دیکھتے تو تم یہ نہ کہتے۔ کیونکہ پھر تمھیں نظر آجاتا کہ اس دنیا میں ظالموں کے لیے عذاب کا آنا اتنا ہی یقینی ہے جتنا سورج کا نکلنا اور زلزلہ کا پھٹنا۔

داعیٔ حق کی بات کو ماننے کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ سننے والا اس کو کہنے والے کے اعتبار سے نہ دیکھے بلکہ جو کہا گیا ہے اس کے اعتبار سے دیکھے۔ چوں کہ حضرت نوح کی قوم آپ کی بات کو بس ایک عام انسان کی بات سمجھ رہی تھی، اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس ذہن کے تحت تم میری بات کی قدر وقیمت کبھی نہیں پاسکتے۔ اب تو تمھارے لیے اسی دن کا ا نتظار کرنا ہے جب کہ خدا براہِ راست تمھارے سامنے آجائے۔