اذ يوحي ربك الى الملايكة اني معكم فثبتوا الذين امنوا سالقي في قلوب الذين كفروا الرعب فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منهم كل بنان ١٢
إِذْ يُوحِى رَبُّكَ إِلَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ أَنِّى مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا۟ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ۚ سَأُلْقِى فِى قُلُوبِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ٱلرُّعْبَ فَٱضْرِبُوا۟ فَوْقَ ٱلْأَعْنَاقِ وَٱضْرِبُوا۟ مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍۢ ١٢
اِذْ
یُوْحِیْ
رَبُّكَ
اِلَی
الْمَلٰٓىِٕكَةِ
اَنِّیْ
مَعَكُمْ
فَثَبِّتُوا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا ؕ
سَاُلْقِیْ
فِیْ
قُلُوْبِ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوا
الرُّعْبَ
فَاضْرِبُوْا
فَوْقَ
الْاَعْنَاقِ
وَاضْرِبُوْا
مِنْهُمْ
كُلَّ
بَنَانٍ
۟ؕ
3

یہ ایک عظیم معاملہ ہے ، اس معرکے میں فوج ملائکہ کے ساتھ خود اللہ بھی موجود ہیں اور ملائکہ اہل ایمان کی مدد کے لیے آ رہے ہیں۔ یہ اس قدر عظیم معاملہ ہے جو کسی صورت میں بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔ سوچئے ! ملائکہ کس طرح شریک ہوئے ؟ انہوں نے کتنے افراد کو مارا ؟ کس طرح مارا ؟ یہ ایک عظیم معاملہ ہے اور بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ جو جماعت اقامت دین کا کام کرتی ہے اس میں اس کے ساتھ ملائکہ شریک ہوتے ہیں اور ملائکہ اس میں حصہ لیتے ہیں۔

ہمارا ایمان ہے کہ مخلوقات رب العالمین میں ایک مخلوق ایسی ہے جسے ملائکہ کہا جاتا ہے کہ ان کی طبیعت اور ماہیت کیا ہے ؟ اس کے بارے میں ہمیں صرف اس قدر علم دیا گیا ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ لہذا ہمیں اس کیفیت کا بھی علم نہیں جس کے مطابق اس مخلوق نے مومنین کی امداد کی۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ رب تعالیٰ نے ان کو یہ حکم دیا کہ وہ مومنین کے لیے ثابت قدمی کا باعث ہوں اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں اور انہوں نے یہ کام کیا ، کیونکہ یہ وہ مخلوق ہے جو امر الہی کی پابند ہے۔ لیکن ہمیں معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے یہ کام کیسے کیا ؟ اللہ نے یہ حکم بھی دیا کہ کفار کی گردنوں پر وار کرو اور ان کے ایک ایک جوڑ پر وار کرو تاکہ یہ کام کے ہی نہ رہیں اور انہوں نے ایسا کیا۔ لیکن کیسے کیا ؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ ہمیں ان کے بارے میں اسی قدر علم ہے جو اللہ نے بتایا۔ پھر اللہ کا حکم یہ تھا کہ کفار کے دلوں کے اندر رعب ڈالا جائے اور یہ ڈال دیا گیا اور ایسا کردیا گیا۔ کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن ہمیں اس کی کیفیات کا بھی علم نہیں ہے کیونکہ یہ کفار اللہ کی مخلوق ہیں اور وہ اپنی مخلوق کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس پر کس طرح اثر ہوگا۔ وہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور وہ شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔

ان افعال کی کیفیات سے بحث کرنا ، دین اسلام کے مزاج کے خلاف ہے اور اس دین کی سنجیدگی کے ساتھ یہ طرز عمل لگا نہیں کھاتا۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ یہ ایک عملی دین ہے اور یہ عقیدہ اور نظریات و تصورات کو بھی عملی حد تک رکھتا ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں مسلمانوں کے علم الکلام کے اندر یہ مباحث زیادہ اہم ہوگئے اور یہ اس وقت ہوا کہ جب لوگ اسلام کے مثبت اور عملی کام سے فارغ ہوگئے اور علمی اور ثقافتی رنگ ان پر غالب ہوگیا۔ لیکن اصل بات تو یہ تھی کہ مسلمان میدان معرکہ ہوتے ، فرشتے ان کے ساتھ بزن کے عالم میں ہوتے اور فرشتوں اور مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتے تو یہ عملی صورت حال مسلمانوں کے لیے ، اس ثقافتی جدل وجدال سے زیادہ نفع بخش ہوتی۔