Anda sedang membaca tafsir untuk kelompok ayat dari 68:48 hingga 68:49
فاصبر لحكم ربك ولا تكن كصاحب الحوت اذ نادى وهو مكظوم ٤٨ لولا ان تداركه نعمة من ربه لنبذ بالعراء وهو مذموم ٤٩
فَٱصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ ٱلْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌۭ ٤٨ لَّوْلَآ أَن تَدَٰرَكَهُۥ نِعْمَةٌۭ مِّن رَّبِّهِۦ لَنُبِذَ بِٱلْعَرَآءِ وَهُوَ مَذْمُومٌۭ ٤٩
فَاصْبِرْ
لِحُكْمِ
رَبِّكَ
وَلَا
تَكُنْ
كَصَاحِبِ
الْحُوْتِ ۘ
اِذْ
نَادٰی
وَهُوَ
مَكْظُوْمٌ
۟ؕ
لَوْلَاۤ
اَنْ
تَدٰرَكَهٗ
نِعْمَةٌ
مِّنْ
رَّبِّهٖ
لَنُبِذَ
بِالْعَرَآءِ
وَهُوَ
مَذْمُوْمٌ
۟
3

فاصبر ........................ من الصلحین

مچھلی والے حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں۔ ان کے واقعہ کی تفصیلات سورة صافات میں گزر گئی ہیں ۔ ان کے تجربہ کا خلاصہ یہ ہے جو حضرت محمد ﷺ کے بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے ، کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو اللہ نے ایک گاﺅں کی طرف بھیجا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ موصل کے قریب نینویٰ نامی گاﺅں تھا۔ ان لوگوں نے ایمان لانے میں دیر کردی۔ آپ کو ان کی یہ حرکت ناگوار گزری۔ غصے میں آپ نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ اپنے دل میں کہا کہ اللہ نے مجھ پر یہ لازم نہیں کیا کہ ان ہٹ دھرموں اور معاندین کے درمیان بیٹھا رہوں جبکہ یہ نہیں مان رہے ہیں ، تو میں کسی دوسری قوم میں کام کرسکتا ہوں یا اللہ مجھے دوسری جگہ بھیج سکتا ہے۔ اس غصے کی حالت میں آپ ساحل کے کنارے تک چلے گئے۔ ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ جب یہ سمندر کے درمیان گئے تو کشتی بھاری ہوگئی اور غرق ہونے لگی۔ انہوں نے قرعہ پھینکا کہ کشتی کو ہلکا کرنے کے لئے ایک آدمی کو کم کیا جائے۔ قرعہ آپ کا نکلا۔ لوگوں نے آپ کو سمندر میں پھینک دیا۔ مچھلی نے نگل لیا۔ اس وقت حضرت یونس (علیہ السلام) نے اللہ کو پکارا جب کہ وہ سخت مشکل میں تھے اور قریب المرگ تھے۔ سمندر کے اندر مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ تاریکیوں پر تاریکیاں تھیں۔ اور موجوں پر موجیں تھیں۔ یہاں انہوں نے پکارا۔

لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین ” نہیں ہے کوئی الٰہ مگر تو ، تو پاک ہے اور میں ظالموں میں سے تھا “۔ اس وقت اللہ کا فضل وکرم آپہنچا ، مچھلی نے انہیں حکم الٰہی کے مطابق ساحل پر اگل دیا۔ اور اس وقت ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ وہ گوشت کالوتھڑا رہ گئے تھے۔ مچھلی کے معدے کی کیمیاوی عمل ان کی جلد کو رقیق بنا دیا تھا جبکہ ابھی تک اللہ نے ان کو زندہ رکھا۔ معجزانہ انداز میں اور اللہ خود اپنے بنائے ہوئے قوانین حیات کا پابند نہیں ہے۔

یہاں اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کا فضل وکرم نہ ہوتا تو مچھلی انہیں اس حالت میں پھینکتی کہ وہ مذموم ہوتے۔ یعنی رب تعالیٰ کی طرف سے مذموم ہوتے۔ کہ وہ اپنے مقام دعوت سے ذرا جلدی چلے گئے۔ اللہ نے ان کی اس تسبیح کو قبول کیا اور ان کے اعتراف اور عذر کو قبول کرلیا اور ان پر رحم وکرم کردیا۔