يا ايها الذين امنوا اذا قمتم الى الصلاة فاغسلوا وجوهكم وايديكم الى المرافق وامسحوا برءوسكم وارجلكم الى الكعبين وان كنتم جنبا فاطهروا وان كنتم مرضى او على سفر او جاء احد منكم من الغايط او لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحوا بوجوهكم وايديكم منه ما يريد الله ليجعل عليكم من حرج ولاكن يريد ليطهركم وليتم نعمته عليكم لعلكم تشكرون ٦
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغْسِلُوا۟ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى ٱلْمَرَافِقِ وَٱمْسَحُوا۟ بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى ٱلْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًۭا فَٱطَّهَّرُوا۟ ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌۭ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَـٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوا۟ مَآءًۭ فَتَيَمَّمُوا۟ صَعِيدًۭا طَيِّبًۭا فَٱمْسَحُوا۟ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍۢ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ٦
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا
اِذَا
قُمْتُمْ
اِلَی
الصَّلٰوةِ
فَاغْسِلُوْا
وُجُوْهَكُمْ
وَاَیْدِیَكُمْ
اِلَی
الْمَرَافِقِ
وَامْسَحُوْا
بِرُءُوْسِكُمْ
وَاَرْجُلَكُمْ
اِلَی
الْكَعْبَیْنِ ؕ
وَاِنْ
كُنْتُمْ
جُنُبًا
فَاطَّهَّرُوْا ؕ
وَاِنْ
كُنْتُمْ
مَّرْضٰۤی
اَوْ
عَلٰی
سَفَرٍ
اَوْ
جَآءَ
اَحَدٌ
مِّنْكُمْ
مِّنَ
الْغَآىِٕطِ
اَوْ
لٰمَسْتُمُ
النِّسَآءَ
فَلَمْ
تَجِدُوْا
مَآءً
فَتَیَمَّمُوْا
صَعِیْدًا
طَیِّبًا
فَامْسَحُوْا
بِوُجُوْهِكُمْ
وَاَیْدِیْكُمْ
مِّنْهُ ؕ
مَا
یُرِیْدُ
اللّٰهُ
لِیَجْعَلَ
عَلَیْكُمْ
مِّنْ
حَرَجٍ
وَّلٰكِنْ
یُّرِیْدُ
لِیُطَهِّرَكُمْ
وَلِیُتِمَّ
نِعْمَتَهٗ
عَلَیْكُمْ
لَعَلَّكُمْ
تَشْكُرُوْنَ
۟
3

اسلام میں نماز کی حیثیت اللہ کے ساتھ ملاقات کی ہے ۔ انسان اللہ کے سامنے دست بستہ کھڑا ہوتا ہے ‘ اللہ سے دعا کرتا ہے ۔ اللہ کے ساتھ راز ونیاز ہوتا ہے اس لئے اس مقام پر کھڑا ہونے کے لئے مناسب تیاری کی ضرورت ہے ۔

روحانی تطہیر سے پہلے اس بات کی ضرورت تھی کہ جسمانی پاکیزگی بھی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ وضو کا حکم دیا گیا ۔ جہاں تک ہم سمجھے ہیں اصل حکمت تو اللہ کے علم میں ہے ۔ بہرحال وضو میں درج ذلیل چیزیں شامل ہیں چہرے کا دھونا ‘ ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا اور سر کا مسح کرنا اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھونا ۔ ان فرائض کے بارے میں معمولی فقہی اختلافات بھی ہیں ۔ اہم اختلاف یہ ہے کہ آیا یہ فرائض وضو اسی طرح ادا کئے جائیں گے جس ترتیب سے ان کا ذکر قرآن میں ہوا ہے یا اس ترتیب کے سوا وضو ہوجاتا ہے ۔ اس بارے میں دو اقوال ہیں ۔

یہ وضو تو اس ناپاکی سے ہے جس میں وضو فرض ہے ۔ رہی جنابت چاہے وہ عورت کے ساتھ مباشرت کی وجہ سے لازم ہو یا احتلام کی وجہ سے تو اس پر غسل واجب ہے ۔ فرائض غسل اور فرائض وضو بیان کرنے کے بعد یہاں تیمم کا ذکر بھی کردیا گیا ۔ تیمم کی اجازت درج ذلیل حالات کے ساتھ مشروط ہے ۔

مثلا یہ کہ پانی سرے سے موجود ہی نہ ہو یا یہ کہ کوئی شخص مریض ہو اور وہ وضو پر قادر نہ ہو یا اس پر غسل واجب ہو پانی اس کے لئے موجب اذیت ہو۔ مسافر جو محتاج وضو ہو یا اس پر غسل واجب ہو اور پانی میسر نہ ہو ۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے وضو کی موجب ناپاکی کی تعبیر کی ہے ۔ (آیت) ” او جآء احد منکم من الغآئط (5 : 6) (یا تم میں سے کوئی نشیبی جگہ سے آیا ہو) غائط کے معنی نشیبی جگہ کے ہوتے ہیں جہاں اکثر لوگ قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں ‘ چاہے وہ پیشاب ہی کرے اور نشیبی جگہ نہ جائے ۔

اور غسل واجب ہونے کی ناپاکی کی تعبیر (آیت) ” اولمستم النسآء “ (5 : 6) (یا تم عورتوں کے ساتھ ہاتھ لگاؤ) یہ شریفانہ انداز بیان مباشرت کے لئے ہے ۔ ایسے حالات میں جن میں حاجت وضو ہو یا حاجت غسل کی کو نماز کے قریب جانے کی اجازت نہیں ‘ الا یہ کہ وہ تیمم کرلے اور پاک مٹی کا ارادہ کرے ۔ یعنی ایسی چیز پر تھپکی دے جو زمین سے ہو اور پاک ہو ۔ چاہے یہ مٹی سواری کی پشت پر ہو ‘ چاہے کہ اپنی ہتھیلیوں کے ساتھ مٹی وغیرہ پر تھپکی دے ‘ پھر دونوں ہاتھ جھاڑ دے اور منہ پر مسح کرلے اور پھر اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کرلے ۔ ایک بار تھپکی دے پورے تیمم کے لئے یا دو بار تھپکی دے ۔ دو فقہی اقوال کے مطابق لفظ (آیت) ” اولمستم النسآء “۔ (5 : 6) کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے ۔ کیا اس سے مراد صرف لمس ہے یا مباشرت ہے ۔ یا اس سے مراد مطلق لمس ہے چاہے شہوت اور لذت کے ساتھ ہو یا اس کے کے بغیر ہو۔ اس میں بھی فقہی اختلافات ہیں ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ مطلق مرض میں تیمم جائز ہے یا ایسے مرض میں جس میں تکلیف ہو یا تکلیف بڑھ جانے کا خطرہ ہو ۔

پھر یہ بھی مختلف فیہ ہے کہ مرض نہ ہو لیکن پانی شدید ٹھنڈا ہو اور اس سے بیماری لاحق ہونے کا خطرہ ہو تو تیمم جائز ہے ۔ راجح بات یہی ہے کہ جائز ہے ۔ اس آیت کے اختتام پر یہ تعقیب آتی ہے ۔

(آیت) ” مِّنْہُ مَا یُرِیْدُ اللّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْْکُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـکِن یُرِیْدُ لِیُطَہَّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (6)

” اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ‘ شاید کہ تم شکر گزار بنو)

جیسا کہ ہم نے بیان کیا اللہ کی ملاقات کی حالت میں صفائی شریعت میں واجب کی گئی ہے ۔ وضو اور غسل میں جسمانی اور روحانی صفائی حاصل ہوتی ہے ۔ رہا تیمم تو اس میں کم از کم روحانی صفائی حاصل ہوتی ہے ۔ اور صفائی کے لئے وہ وضو اور غسل کا قائم مقام ہوتا ہے جب پانی نہ ملے یا پانی کے استعمال میں ضرر کا احتمال ہو ۔ یہ اس لئے جائز کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر خواہ مخواہ سختی اور شدت نہیں چاہتے اور نہ لوگوں کو مشتقت اور مشکلات میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو پاک کر دے ۔ یہ پاکی ان پر بطور انعام آئے اور اس کے بعد وہ اس نعمت کا شکر ادا کریں اور اس شکر کے بدلے اللہ اپنے فضل وکرم اور انعام اکرام میں مزید اضافہ فرمائیں ۔ یہ ہے نرمی ‘ مہربانی اور اسلامی نظام کی واقعیت پسندی اور مستقل سہولت کی فراہمی ۔ وضو غسل اور تیمم کی حکمت ۔ اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتے ہیں :

(آیت) ” مِّنْہُ مَا یُرِیْدُ اللّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْْکُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـکِن یُرِیْدُ لِیُطَہَّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (6)

” اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ‘ شاید کہ تم شکر گزار بنو) اسلامی نظام حیات مسلمانوں کو مراسم عبودیت اور نظام قانون دونوں میں ایک حسین ہم آہنگی عطا کرتا ہے ۔ وضو اور غسل سے محض جسمانی تطہیر کا فائدہ ہی حاصل نہیں ہوتا کہ آج کل کے نام نہاد مفکرین اسلام یہ اعتراض وارد کرسکیں کہ اس دور جدید میں ہمیں محض صفائی کے لئے اس قسم کے انتظامات کی ضرورت نہیں ہے جس طرح پسماندہ عربوں کو ضرورت تھی اس لئے کہ اب تو حماموں میں صحت وصفائی کے اچھے انتظامات ہیں اور ہم مہذب ہونے کی وجہ سے بھی صفائی کا بہت ہی خیال رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ اعتراض اس لئے نہیں وارد کرسکتے کہ وضو اور غسل کے ذریعے اسلام نے جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں سے ہمارے لئے تطہیر کا نظام وضع کیا ہے ۔ پھر اس نظام کو عبادت کے ساتھ منسلک کرکے باقاعدہ بنا دیا ہے کہ تمام لوگ پاک اور صاف وستھرے ہوں ۔ جب وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ وضو اور غسل میں جسمانی صفائی سے روحانی صفائی کا پہلو زیادہ مد نظر رکھا گیا ہے تو ان کے عوض تیمم کو رکھا گیا ہے اس لئے کہ جب پانی کا استعمال ممکن نہ ہو تو ان کے عوض تیمم کو رکھا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ تیمم کے اندر ظاہری صفائی حاصل ہی نہیں ہوتی ۔ اس پر مزید یہ کہ اسلامی نظام زندگی ایک عام نظام ہے اور وہ ہر قسم کے حالات کے لئے ہے ۔ ہر خاندان ‘ ہر طور طریقے کے لئے ایک ہی نظام اور طریقہ ہے ‘ اس لئے اس کا فائدہ ہر قسم کے حالات اور ہر قسم کے ماحول اور ہر قسم کی سوسائٹی میں ہوتا ہے ۔ ہر صورت میں اور ہر مفہوم میں اس کی حکمت اور فائدہ موجود ہوتا ہے اور کسی صورت میں بھی اس سے تخلف نہیں ہوتا ۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم سب سے پہلے اسلامی نظریہ حیات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں اور بعد میں اس کے بارے میں اظہار خیال کریں ورنہ ہمارا فتوی بغیر علم اور بغیر روشن کتاب کی ہدایات کے ہوگا ۔ پھر ہماری سعی یہ ہونا چاہئے کہ ہم اللہ کے ساتھ نہایت ہی ادب واحترام سے پیش آئیں اور جو بات ہم جانتے ہیں اور جو باتیں نہیں جانتے دونوں میں احترام سے پیش آئیں ۔ (اس کی ایک مثال زکوۃ اور ٹیکس کے درمیان فرق ہے ۔ اس لئے ٹیکس کی وجہ سے ہم زکوۃ کو ختم نہیں کرسکتے ۔ یہ بحث بھی جلد ہی آئے گی)

یہ مسائل کہ جب وضو ممکن نہ ہو یا غسل نہ ہو عذر اور ضرر کی وجہ سے تو اس وقت تیمم جائز ہے ۔ اس میں ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے اور وہ یہ کہ اسلامی نظام حیات کے اندر نماز کی کس قدر اہمیت ہے اور اس کی راہ میں جو رکاوٹیں اور مشکلات حائل ہوں اسلامی نظام انہیں کیسے حکیمانہ انداز میں حل کرتا ہے ۔ تیمم کے اس حکم اور پھر اس کے ساتھ نماز کے بارے میں دوسرے احکام مثلا صلوۃ الخوف ‘ صلوۃ المریض کے احکام کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ثابت ہوگا کہ بیٹھ کر ‘ لیٹ کر ‘ پہلو پر جیسے بھی ممکن ہو نماز کی ادائیگی ضروری ہے ۔ اسلام اس پر بہت تاکید کرتا ہے ۔ ان تمام احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام حیات مسلمانوں کی اخلاقی اور نفسیاتی تربیت میں نماز کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اس لئے کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہونا اور اللہ سے ملاقات کرنا ‘ انسان پر بےحد اثر انداز ہوتا ہے ۔ اسلام سخت سے سخت حالات میں بھی اور نہایت ہی مشکل اوقات بھی اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا ، اس کی راہ میں کسی مشکل کو حائل ہونے نہیں دیتا ۔ دن میں پانچ بار بندے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے رب سے ملے اور اس ملاقات کو کسی وجہ سے بھی نہ چھوڑے ۔ یہ دل کی تازگی ہے اور آنکھوں کا سرور ہے اور اللہ کا سایہ اور خوشگوار سایہ ہے ۔

احکام طہارت اور اس سے پہلے دیئے جانے والے احکام کے بعد اب یہ اختتامیہ آتا ہے جس میں نعمت ایمان کے بارے میں یاد دہانی ہے ۔ اور اس عہد کی تذکیر جو انہوں نے اللہ کے ساتھ باندھا تھا اور جس میں انہوں نے سمع اور اطاعت کا اقرار کیا تھا یہ وہی میثاق تھا ‘ جس کے ذریعے وہ اسلام میں داخل ہوئے تھے ‘ جیسا کہ اس سے پہلے ہم بیان کر آئے ہیں ‘ نیز مسلمانوں کو خدا خوفی کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان تمام باتوں کے بارے میں علم ہے ‘ جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہیں ۔