Anda sedang membaca tafsir untuk kelompok ayat dari 5:25 hingga 5:26
قَالَ
رَبِّ
اِنِّیْ
لَاۤ
اَمْلِكُ
اِلَّا
نَفْسِیْ
وَاَخِیْ
فَافْرُقْ
بَیْنَنَا
وَبَیْنَ
الْقَوْمِ
الْفٰسِقِیْنَ
۟
قَالَ
فَاِنَّهَا
مُحَرَّمَةٌ
عَلَیْهِمْ
اَرْبَعِیْنَ
سَنَةً ۚ
یَتِیْهُوْنَ
فِی
الْاَرْضِ ؕ
فَلَا
تَاْسَ
عَلَی
الْقَوْمِ
الْفٰسِقِیْنَ
۟۠
3

بنی اسرائیل جب حضرت موسیٰ کی قیادت میں مصرسے نکل کر صحرائے سینا میں پہنچے تو اس زمانہ میں شام و فلسطین کے علاقہ میں ایک ظالم قوم (عمالقہ) کی حکومت تھی۔ اللہ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ یہ ظالم لوگ اپنی عمر پوری کر چکے ہیں۔ تم ان کے ملک میں داخل ہوجاؤ، تم کو خدا کی مدد حاصل ہوگی اور تم معمولی مقابلہ کے بعد ان کے اوپر قبضہ پالو گے۔ مگر بنی اسرائیل پر اس قوم کی ایسی ہیبت طاری تھی کہ وہ ان کے ملک میں داخل ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ سے زیادہ انسانوں سے ڈرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ کی نظر میں ان کی کوئی قیمت نہ رہی۔ اللہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا کہ وہ چالیس سال (1440-1400 ق م) تک فاران اور شرق اردن کے درمیان صحرا میں بھٹکتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ 20 سال سے لے کر اوپر کی عمر تک کے سارے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران ان كي ايك نئی نسل نئے حالات میں پرورش پاکر اٹھے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 40 سال کی صحرائی زندگی میں ان کے تمام بڑی عمر والے مرکر ختم ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی نئی نسل نے یوشع بن نون کی قیادت میں شام وفلسطین کو فتح کیا۔ یہ یوشع بن نون ان دو صالح اسرائیلیوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے عمالقہ کے ملک میں داخل ہوجاؤ۔

بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ اگر ہم اس ملک پر حملہ کریں تو ہم کو شکست ہوگی اور اس کے بعد ’’ہمارے بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے‘‘۔ مگر یہی بچے بڑے ہو کر عمالقہ کے ملک میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کیا۔بچوںمیں یہ طاقت اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے لمبی مدت تک صحرائی زندگی کی مشقتوں کو برداشت کیا تھا۔ بچوں کے باپ جن پُر خطر حالات کو اپنے بچوں کے حق میں موت سمجھتے تھے انھیں پُر خطر حالات کے اندر داخل ہونے میں ان کے بچوں کی زندگی کا راز چھپا ہوا تھا۔

موافق حالات میں جینا بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے اندر تمام بہترین اوصاف اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کہ اس کو حالات کا مقابلہ کرکے زندہ رہنا پڑے۔ مصر میں بنی اسرائیل صدیوں تک عافیت کی زندگی گزارتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک مُردہ قوم بن گئے۔ مگر خروج کے بعد ان کو جو صحرائی زندگی حاصل ہوئی اس میں زندگی ان کے لیے سراپا چیلنج تھی۔ ان حالات میں جو لوگ بچپن سے جوانی کی عمر کو پہنچے وہ قدرتی طورپر بالکل دوسری قسم کے لوگ تھے۔ صحرائی حالات نے ان کے اندر سادگی، ہمت، جفاکشی اور حقیقت پسندی پیدا کردی تھی۔ اور یہی وہ اوصاف ہیں، جو کسی قوم کو زندہ قوم بناتے ہیں — کوئی قوم اگر حالات کے نتیجہ میں مردہ قوم بن جائے تو اس کو دوبارہ زندہ قوم بنانے کے لیے غیر معمولی حالات میں ڈال دیا جاتا ہے۔