يا ايها الذين امنوا شهادة بينكم اذا حضر احدكم الموت حين الوصية اثنان ذوا عدل منكم او اخران من غيركم ان انتم ضربتم في الارض فاصابتكم مصيبة الموت تحبسونهما من بعد الصلاة فيقسمان بالله ان ارتبتم لا نشتري به ثمنا ولو كان ذا قربى ولا نكتم شهادة الله انا اذا لمن الاثمين ١٠٦
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ شَهَـٰدَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ حِينَ ٱلْوَصِيَّةِ ٱثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍۢ مِّنكُمْ أَوْ ءَاخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِى ٱلْأَرْضِ فَأَصَـٰبَتْكُم مُّصِيبَةُ ٱلْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِنۢ بَعْدِ ٱلصَّلَوٰةِ فَيُقْسِمَانِ بِٱللَّهِ إِنِ ٱرْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِى بِهِۦ ثَمَنًۭا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَـٰدَةَ ٱللَّهِ إِنَّآ إِذًۭا لَّمِنَ ٱلْـَٔاثِمِينَ ١٠٦
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
شَهَادَةُ
بَیْنِكُمْ
اِذَا
حَضَرَ
اَحَدَكُمُ
الْمَوْتُ
حِیْنَ
الْوَصِیَّةِ
اثْنٰنِ
ذَوَا
عَدْلٍ
مِّنْكُمْ
اَوْ
اٰخَرٰنِ
مِنْ
غَیْرِكُمْ
اِنْ
اَنْتُمْ
ضَرَبْتُمْ
فِی
الْاَرْضِ
فَاَصَابَتْكُمْ
مُّصِیْبَةُ
الْمَوْتِ ؕ
تَحْبِسُوْنَهُمَا
مِنْ
بَعْدِ
الصَّلٰوةِ
فَیُقْسِمٰنِ
بِاللّٰهِ
اِنِ
ارْتَبْتُمْ
لَا
نَشْتَرِیْ
بِهٖ
ثَمَنًا
وَّلَوْ
كَانَ
ذَا
قُرْبٰی ۙ
وَلَا
نَكْتُمُ
شَهَادَةَ ۙ
اللّٰهِ
اِنَّاۤ
اِذًا
لَّمِنَ
الْاٰثِمِیْنَ
۟
3

آیت 106 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ یعنی موت سے قبل وصیت کے وقت اپنے لوگوں میں سے دو گواہ مرد مقرر کرلو۔ واضح رہے کہ وصیت کل ترکے کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کی نہیں ہوسکتی۔ اگر جائیداد زیادہ ہے تو اس کا ایک تہائی حصہ بھی خاصا زیادہ ہوسکتا ہے۔ ُ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ ط یا دوسرے دو آدمی تمہارے غیروں میں سے اگر تم زمین میں سفر پر نکلے ہوئے ہو اور حالت سفر میں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے۔یعنی حالت سفر میں اگر کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ وصیت کرنا چاہتا ہو تو ایسی صورت میں گواہان غیر قوم ‘ کسی دوسری بستی ‘ کسی دوسری برادری اور دوسرے قبیلے سے بھی مقرر کیے جاسکتے ہیں ‘ مگر عام حالات میں اپنی بستی ‘ اپنے خاندان میں رہتے ہوئے کوئی شخص انتقال کر رہا ہے تو اسے وصیّت کے وقت اپنے لوگوں ‘ رشتہ داروں اور قرابت داروں میں سے ہی دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنانا چاہیے۔تَحْبِسُوْنَہُمَا مِنْم بَعْدِ الصَّلٰوۃِ یعنی جب وصیت کے بارے میں متعلقہ لوگ پوچھیں اور اس میں کچھ شک کا احتمال ہو تو نماز کے بعد ان دونوں گواہوں کو مسجد میں روک لیا جائے۔فَیُقْسِمٰنِ باللّٰہِ اِنِ ارْتَبْتُمْ اگر تمہیں ان کے بارے میں کوئی شک ہو کہ کہیں یہ وصیّت کو بدل نہ دیں ‘ کہیں ان سے غلطی نہ ہوجائے تو تم ان سے قسم اٹھوا لو۔ وہ نماز کے بعد مسجد میں حلف کی بنیاد پر شہادت دیں ‘ اور اس طرح کہیں :لاَ نَشْتَرِیْ بِہٖ ثَمَنًا وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ہم اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کریں گے ‘ اگرچہ کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو یعنی ہم اس شہادت سے نہ تو خود کوئی ناجائز فائدہ اٹھائیں گے ‘ نہ کسی کے حق میں کوئی ناانصافی کریں گے اور نہ ہی کسی رشتہ دار عزیز کو کوئی ناجائز فائدہ پہنچائیں گے۔وَلاَ نَکْتُمُ شَہَادَۃَ اللّٰہِ غور کریں گواہی اتنی عظیم شے ہے کہ اسے شَھَادَۃَ اللّٰہِ ‘ کہا گیا ہے ‘ یعنی اللہ کی گواہی ‘ اللہ کی طرف سے ‘ امانت۔