هو الله الخالق الباري المصور له الاسماء الحسنى يسبح له ما في السماوات والارض وهو العزيز الحكيم ٢٤
هُوَ ٱللَّهُ ٱلْخَـٰلِقُ ٱلْبَارِئُ ٱلْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ٢٤
هُوَ
اللّٰهُ
الْخَالِقُ
الْبَارِئُ
الْمُصَوِّرُ
لَهُ
الْاَسْمَآءُ
الْحُسْنٰی ؕ
یُسَبِّحُ
لَهٗ
مَا
فِی
السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضِ ۚ
وَهُوَ
الْعَزِیْزُ
الْحَكِیْمُ
۟۠
3

اور آخری تسبیح ہی طویل ہے :

ھواللہ (95 : 43) ” وہی ہے معبود “ اور اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔

الخالق الباری (95 : 42) ” تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اسے نافذ کرنے والا “۔ خلق کا مفہوم ہے : منصوبہ بنانا اور پورا نظام تقدیر تیار کرنا۔ اور باری کے معنی پھر اس منصوبے کو مسلسل نافذ کرتے چلے جانا۔ یہ دونوں صفات باہم متصل ہیں۔ ان میں فرق بھی لطیف ہے۔

المصور (95 : 42) ” صورت گری کرنے والا “۔ یہ صفت بھی سابقہ دونوں صفات سے مربوط ہے۔ یعنی منصوبہ ، پھر تخلیق اور پھر تصور اور خدوخال کا تعین۔ ہر چیز کی صورت اور سیرت کا تعین۔ ہر چیز کو اس کے خواص عطا کرنا۔

یہاں ان صفات کا مسلسل لانا ، جن کے اندر بہت کم فرق ہے اور جو تخلیق ہی کے مختلف مراحل ہیں ، یہ اشارہ دیتا ہے کہ کسی بھی تخلیق کے کام میں یہی تدریج کار فرما ہوتی ہے۔ یہ اشارہ انسانوں کو دیا جارہا ہے۔ انسانی تصورات کے مطابق پہلے نقشہ تخلیق ، پھر تخلیق اور پھر تصور ہوتی ہے ورنہ اللہ کے ہاں تو نہ درجات ہیں اور نہ مراحل ہیں۔ وہاں تو کن فیکون ہے۔ ہم انسان ان امور کو اپنے دائرہ ضرورت میں لاکر سمجھتے ہیں اور ہماری قدرت اور طاقت بہت چھوٹی ہے۔

لہ الاسماء الحسنی (95 : 42) ” اس کے بہترین نام ہیں “۔ یہ نام بذات خود اچھے ہیں۔ ان کو اچھا کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی اچھا کہے تو اچھے ہوں۔ یہ اسمائے حسنی انسانوں کے دلوں پر حسن کے فیوض کرتے ہیں۔ ان پر غوروتدبر کرکے اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا اور ان سے ہدایت لے کر انسان کمال حاصل کرسکتا ہے کیونکہ اللہ ان صفات کے ساتھ متصف ہونا پسند کرتا ہے تو یہ پسندیدہ صفات ہیں ، اوصاف حمیدہ ہیں۔ لہٰذا انسان کو ان درجات میں بلند ہوتے رہنا چاہئے۔

اسمائے حسنی کے ساتھ اللہ کی تسبیح ، پاکی اور یاد کا یہ طویل سلسلہ اب اس پوری کائنات کی وسعتوں میں پھیل جاتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز یہ فیوض لے رہی ہے لہٰذا تم بھی ان تسبیحات سے اشارات لو اور فیوض حاصل کرو۔

یسبح لہ ........................................ العزیز الحکیم (95 : 42) ” ہر چیز جو آسمان اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کررہی ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔ یہ ہے وہ منظر جو ان صفات کے ذکر کے بعد ایک متوقع منظر ہے۔ تمام اشیاء اس میں شریک ہیں۔ سورت کا آغاز واختتام بھی باہم مل جاتا ہے اور آغاز میں بھی اللہ کی پاکی اور انجام میں اس کی تسبیح سبحان اللہ وبحمدہ۔