لقد صدق الله رسوله الرويا بالحق لتدخلن المسجد الحرام ان شاء الله امنين محلقين رءوسكم ومقصرين لا تخافون فعلم ما لم تعلموا فجعل من دون ذالك فتحا قريبا ٢٧
لَّقَدْ صَدَقَ ٱللَّهُ رَسُولَهُ ٱلرُّءْيَا بِٱلْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ ٱلْمَسْجِدَ ٱلْحَرَامَ إِن شَآءَ ٱللَّهُ ءَامِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا۟ فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًۭا قَرِيبًا ٢٧
لَقَدْ
صَدَقَ
اللّٰهُ
رَسُوْلَهُ
الرُّءْیَا
بِالْحَقِّ ۚ
لَتَدْخُلُنَّ
الْمَسْجِدَ
الْحَرَامَ
اِنْ
شَآءَ
اللّٰهُ
اٰمِنِیْنَ ۙ
مُحَلِّقِیْنَ
رُءُوْسَكُمْ
وَمُقَصِّرِیْنَ ۙ
لَا
تَخَافُوْنَ ؕ
فَعَلِمَ
مَا
لَمْ
تَعْلَمُوْا
فَجَعَلَ
مِنْ
دُوْنِ
ذٰلِكَ
فَتْحًا
قَرِیْبًا
۟
3

حدیبیہ کا سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خواب پر ہوا تھا۔ آپ نے مدینہ میں خواب دیکھا کہ آپ مکہ پہنچ کر عمرہ ادا فرما رہے ہیں۔ اس خواب کو لوگوں نے خدا کی بشارت سمجھا اور مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مگر حدیبیہ میں قریش نے روکا اور بالآخر عمرہ ادا کیے بغیر لوگوں کو واپس آنا پڑا۔ اس سے بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ کیا پیغمبر کا خواب سچا نہ تھا۔ مگر یہ محض شبہ تھا۔ کیونکہ خواب میں یہ صراحت نہ تھی کہ عمرہ اسی سال ہوگا۔ چنانچہ خود معاہدہ کی شرائط کے مطابق اگلے سال ذوالقعدہ 7 ھ میں یہ عمرہ پورے امن و امان کے ساتھ ادا کیا گیا۔ اس عمرہ کو اسلامی تاریخ میں عمرۃ القضاء کہا جاتا ہے۔

اس سال عمرہ کا التوا ایک عظیم مصلحت کی قیمت پر ہوا تھا۔ یہ مصلحت کہ اس کے ذریعہ قریش سے دس سال کا ناجنگ معاہدہ طے پایا اور نتیجۃً دعوت کے کام کے لیے موافق فضا پیدا ہوئی۔ یہ خود ایک فتح تھی۔ کیوں کہ اس کے ذریعہ سے علم بردارانِ شرک کے اوپر آخری اور کلی فتح کا دروازہ کھلا۔